ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
"اتحاد و اتفاق" قوم کا سر چشمہ ہے
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
قوم مذہب سے سے مذہب جو نہیں تو تم بھی نہیں
قومی اتحاد
اتحاد کی برکتیں
قومی زندگی میں نظم و ضبط کی اہمیت/
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں/
منفعت ایک ہے اِس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
علامہ اقبال کا یہ مصرعہ بنیادی طور پر قرانِ پاک کی آیت،
'واعتصموا بحبل اللہ ِ جمعیاولاتفرقوا'
( اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرفہ میں نہ پڑو۔)… کا عملی ترجمہ ہے۔
کیونکہ فی زمانہ ہم مسلمان جس قدر فتنہ و تفرقہ بازی کا شکار ہیں۔ اس سے قبل نہیں رہے۔ دورِ حاضر اپنی جدید ٹیکنالوجیوں کی وجہ سے تفرقے کے جن کو تباہ کن حد تک خوفناک بنا چکاہے۔ ہم ٹکڑے ٹکڑے مسلمان، بکھری بکھری اُمّت، کٹی پھٹی قوم، اُجڑی پُجری جمعیت، تنکا تنکا ہوکر طوفانِ حوادث کا شکار ہوچکے ہیں۔
علامہ اقبالؒ کے اِ س مصرع کا پورا شعر یوں ہے،
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر
جو اس بات کی طرق اشارہ کرتا ہے کہ حرم کی پاسبانی سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ مسلمان خانہ ء کعبہ کو کفار کے غلبہ سے چھڑانے کے لیے ایک ہوجائیں۔ کیونکہ بیت اللہ…… وہ خانہء مقدس ہے جس کی حفاظت اُس گھر کے مالک کی اپنی ذمہ داری جیسے اُس نے ابرہہ کے لشکر سے اپنے گھر کو محفوظ رکھا تھا۔سو اگر اس شعر کے حقیقی مفہوم تک پہنچنا ہے تو ہمیں مسلم اُمہ کی ترکیب کو سمجھنا ہوگا۔
اقبالؒ نے ہی کہا تھا،
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ جب عالمِِ اسلام کے ماضی کی طرف نظر دوڑائی جائے تو اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے کئی صدیوں تک اس دنیا پر راج کیا جس کو دیکھ کر سب رشک کر تے ہیں۔ بحثیت مسمان ہم سب حضرت محمدﷺ کے امتی ہیں ۔اور ہمارا ماضی بھی اسی لیے شاندار تھا کہ ہم نے اپنے نبی ﷺکی پیر وی کی اور ان کے احکامات پر عمل کیا
لیکن افسوس آج اس دینِ محمدیﷺ کو دنیا بھر میں فساد کی علامت سمجھا جاتاہے ۔لوگ مسلمان قوم کا مذاق اُڑاتے ہیں اور مسلمان لفظ سن کر شدت پسندی کو اپنےذہنوں میں لے آتے ہیں ۔دنیابھر میں مسلمان اپنا تاریخی مقام کھو چکے ہیں ۔ ہم تعداد میں بھی اتنے ہی ہیں جتنے پہلے تھے اور آج دنیا کے ہر کونے میں مسلمان موجود ہیں ۔لیکن کیا وجہ ہے کہ آج ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود کمزور ہیں . ۔ آقا دو عالم ﷺ کے بعد مسلمان فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور ایک دوسرے کو کافر کہہ کر مارنا شروع کر دیا اور آج یہ صورت حال انتہائی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے ۔ مسلم ممالک میں فرقہ پرستی لاکھوں لوگوں کی جان لے چکی ہے
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عزت ہمیں واپس مل جائے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ مسلم نشاۃِ ثانیہ کا اقبالی خواب پورا ہوجائے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بروزِ حشر کالی کملی والے کی نگاہوں میں سُرخرو ہوجائیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسانیت کے اُمتِ واحدہ ہونے کی تمنائے ربانی کبھی پوری ہوجائے،اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ سموات اور یہ سیارے انسان کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ عالم ِ بشریت عالم ملوکیت کے سامنے سُرخرو ہوجائے، اگر ہم چاہتے ہیں بطور پاکستانی دنیا میں ہمارا سر فخر سے بلند ہو نہ کہ شرم سے جھکے ، اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان سنور جائے، سدھر جائے، ہم سب سنور جائیں، سدھر جائیں، زندگی میں چین آئے، بہار آئے، غنچے کھلیں، پھول مہکیں، بہاریں ناچیں، فضائیں مسکرائیں، امن ہو، انصاف کا پرچم بلند ہو، تعلیم ہو ، صحت ہو، ایمانداری ہو، خلوص ہو، ایمان ہو، جذبہ ہو اگرہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کردیں مگر یہ اسی وفت ممکن ہے جب ہم اپنے آپس کے اختلاقات کی آگ کو محبت و اخوت کے ٹھنڈے چشموں سے بجھا کر ایک ہوجائے اوراللہ پر توکل کریں
ہماری تہذیب کے مظاہر جمیل بھی تھے جلیل بھی تھے
اگر تھے ابرِ بہار اپنے قلم تو تیغِ اصیل بھی تھے
مگر بتدریج اپنی عظمت کے ان منازل سے ہٹ گئے ہم
بہت سے اوہام اور اباطیل کے گروہوں میں بَٹ گئے ہم
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ہی ہم ان گہری کھائیوں میں گرنے سے بچ سکتے ہیں۔جو مغربی تہذیب کی شکل میں ہمارے تمام تر اثاثوں کو چاٹتی جارہی ہے۔ قرانِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔
’’کان الناس اُمۃ واحدہ‘‘
"تمام انسان ایک اُمت ہیں"۔
ملتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ سے حقیقی مراد انسانی عظمت اور سربلندی کے آفتاب کا طلوع دائمی ہے۔ ملّتِ اسلامیہ کا مقصود ہی یہی ہے۔ بقول اقبالؒ:۔
تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم
مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم؟
اسلام کا مقصود ہی جب ملتِ انسانیہ کا قیام ہے تو پھر کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم۔ سوال ہے تو صرف اتنا کہ انسانیت کا جو حصہ قرآن و حدیث کے ساتھ جڑا ہوا ہے یعنی مسلم اُمہ، وہ نہایت خستہ حالی کا شکار ہے۔ اور ضرورت ہے تو اس امر کی تمام مسلمان آپس کے اختلافات کو ترک کرکے ایک قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے اپنے اخلاقِ حسنہ کا مظاہرہ کریں او ر ایک مرتبہ پھر دنیا کی رہنمائی کا اپنا بھولا ہوا سبق یاد کریں۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، شجاعت کا ، امانت کا
لیا جائیگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
No comments:
Post a Comment