Wednesday, 30 January 2019

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

یہ کلام عبدالمجید سالک کی ہے جو انہوں نے 1935ءمیں کہی تھی۔ 

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰة ہے

اس مصرعے کے متبادل دنیا کی ہر زبان، ہر مذہب اور ہر تہذیب میں موجود ہوں گے کیونکہ ہر قوم کو اپنی بقا کے لیے اور ہر تحریک کو اپنی نمود کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں، یقینی موت کے طرف لپکیں اور اپنی زندگی دے کر قوموں کو اور تحریکوں کی نظریات کو دوام بخشیں۔

اسلام میں  فلسفہ شہادت کافی واضح ہے- اللہ تعالی کے نزدیک شہادت بلند ترین اعزاز ہے - سورہ آل عمران آیت نمبر 157 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ  

" اگر تم اللہ کے راستے میں مرجاؤ یا مارے جاؤتو جو (مال و متاع) لوگ جمع کرتے ہیں 
اس سے اللہ کی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے"  


 وطن کی مٹی اپنی حفاظت کے لۓ  قربانی مانگتی ہے  اور قربانی بھی ایسی   جو ہر ایک کی بس کی بات نہیں  یہ قربانی صرف وہی لوگ  دیتے ہیں یا دے سکتے ہیں جن کو اپنی دھرتی سے پیار ہوتا ہے  اور وہ ملک کی آزادی کو ترجیح د یتے ہوۓ اپنی جان اور مال  وطن پر نثار کرتے ہیں  کچھ تو شہادت کے رتبہ میں فاءز ہوتے ہیں اور کچھ غازی بن جاتے ہیں ۔     دشمن کے گولے کو یہ پہچان نہیں ہوتی ہے کہ کون ہے, کہاں کا ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وطن کے  لۓ جام شہادت نوش کرنے والے کے لۓ ذات, قبیلہ, فرقہ کوئی معانی نہیں رکھتا.  وہ اپنے ملک کی آن اور شان اور اس کی آزادی کی خاطر  صرف ایک ہی جذبہ رکھتا ہے اور وہ  جذبہ, وہ عزم, وہ لگن  وطن کا تحفظ اور حفاظت ہے


خونِ دل دے کے نکھاریں گےرُخِ برگِ گلاب

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

ان ماؤں اور باپوں  کو سلام جو ایسے سپتوں کو پروان چڑھاتی ہیں اور وقت آنے پر  اپنا آخری سہارا وطن  کی حفاظت کے  لۓ  بطور نذرانہ پیش کر دیتے ہیں اور اف تک نہیں کرتے  کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ  شہید زندہ و جاوید ہوتے ہیں ۔یہ ایک عظیم رتبہ ہے  جو قسمت والوں کو ہی ملتا ہے   جن کی  مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے

 اس کی اہمیت اسلام کے آغاز میں  اس واقعہ  سے واضح ہوجاتی ہے ۔احد کے میدان میں حضرت مصعب رضی اللہ عنہ زمین پر شہید پڑے تھے  اسی دن  حضور کا جھنڈا  انہی کے ہاتھ میں تھا اور حضور ﷺ  حضرت مصعب بن عمیر  رضی اللہ عنہ کے پاس   کھڑے تھے  اس وقت رسول خدا نے ایک آیت پڑھی تھی ۔جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔
" ایمان والوں  میں کچھ مرد ایسے ہیں  کہ انہوں نے  جس بات کا اللہ سے عہد کیا تھا 
 اسے سچ کر دکھلایا  پھر بعض  تو ان میں سے  وہ ہیں جنہوں نے اپنا ذمہ پورا کر لیا 
 اور بعض ان میں سے اللہ کے راستے مین جاں قربان کرنے کے لۓ  راہ دیکھ رہے ہیں
  اور وہ ذرہ برابر  نہیں بدلے"

پاک فوج کو پاکستان کی بنیاد پڑتے ہی ابتداءمیں اپنی پیشہ وارانہ خدمات ملک کی خاطر پیش کرنے کی ضرورت پڑگئی۔آزادی حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کے قافلے ہجرت کرکے پاکستان کی جانب رواں دواں ہوئے تو ہندواور سکھوں نے مسلمانوں مہاجروں کاقتل عام شروع کیا۔۔ پاکستان کی نوزائیدہ فوج  نے وطن عزیز کے دفاع اورملک کو دشمن  کے چنگل سے آزاد کرانے کی خاطر  لبیک کہا اور اس جنگ میں بھی متعد فوجی شہید ہوئے۔  1965ئ کی جنگ, 1971ءکی جنگ میں صف آرائی، کارگل کے محاذ اور اب 2001ءسے جاری دہشت گردی کےخلاف جنگ میں دشمن کی جارحیت کا مکمل جوش وجذبے سے جواب دینے کی خاطر ہزاروں فوجیوں نے شہادت کا رتبہ پایا۔ قوم کو ان شہیدوں پر فخر ہے۔ کیونکہ انہوں نے ہمارے بہترمستقبل کی خاطر اپنا تن من دھن وطن عزیز پر قربان کردیا۔ ان جانثار سرفروشوں کو ایک ہی لگن تھی کہ وہ ملک وقوم کی خاطر رتبہ شہادت حاصل کریں۔ بقول علامہ اقبالؒ

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

قوم کے وہ جوان  جو ضرورت پڑنے پر سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن رزمگاہ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں ،آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں، تو ان میں کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتا ہیں۔ عرض هے كه 
زکوٰة دے اگر کوئی زیادہ ہو تو نگری

بکھیر دے اناج اگر تو فصل ہو ہری بھری
چھٹیں جو چند ڈالیاں نموہو نخل طاق کی
کٹیں جو چند گردنیں تو قوم میں ہوزندگی

اور ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے ہر ذی روح کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے تو کیوں نہ اپنی جان اللہ کے راستے قربان کرنے کے لۓ ہر دم تیار رہیں۔

تمہاری ضو سے دل نشین جبین کائنات ہے
بقا کی روشنی ہو تم پناہ اندھیری رات ہے
شہید کی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوۃ ہے


No comments:

Post a Comment