مضمون
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے.
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
میرا آجکا مضمون شاعر مشرق علامہ اقبال کا شعر ہے. جن کا پیغام یا فلسفہ حیات صرف ایک لفظ " خودی" سے عیاں ہوجاتا ہے. خودی فارسی زبان کا لفظ ہے - لغوی اعتبار سے خودی کے معنی انا، خود پرستی، خود مختاری، خود سری، خود غرضی اور غرور کے ہیں۔ لیکن اقبال نے ”خودی“ کا لفظ تکبر و غرور یا اردو و فارسی کے لغوی معنوں میں استعمال نہیں کیا ہے۔ ان کے نزدیک خودی نام ہے احساسِ غیرت مندی کا، جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا، اپنی انا کو شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، مظاہراتِ فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔
خودی کی آنکھ نہ جھک جاۓ بزم ہستی میں
کہ جھک گئ تو یہ بے نور ہو کر رہتی ہے
”خودی“ کا تعلق انسان کا اپنی نفسی خواہشات پر قابو پا کر زندگی کو ایسے سانچے میں ڈھالنا ہے جو اس کے کردار کی تعمیر کریں۔ زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ انسان کی سوچوں پر منحصر ہے . فرد وملت کی ترقی و تنزل، زندگی کا تحفظ اور استحکام ۔ ازل سے ابد تک انسان کی ذاتی سوچ اور عمل کی ہی کارفرمائی ہے۔ جن کے بناء پر وہ زندگی کا عروج بھی جاصل کرسکتا ہے یا پھر زوال سے بھی ہمکنار ہوسکتا ہے۔ غرضیکہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے ۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے ۔خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقرمیں شہنشائی کی شان پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے ۔
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اُس میں
نہ پُوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے
نہ پُوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے
انسان کی جدوجہد و عمل اس کے کردار کی تعمیر کرتا ہے۔ بے قید و بے ترتیب نفس کی مثال شیطان کی سی ہے جو صراط مستقیم سے بھٹک چکی ہو۔ دنیا و آخرت میں اعلی مقام حاصل کرنے کیلۓ اطاعت الہی، ضبط نفس اور نیابت الہی اولین شرط ہے۔ غرض عشق حقیقی سے سرشار ہوکر انسان اپنے آپ کو اس راہ پر گامزن کرے جس سے وہ آللہ کی قربت حاصل کرسکے ۔ آللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اسے عقل و شعور عطا کیا ہے تاکہ وہ اپنے عمل اور کردار سے اللہ کی خوشنوی اور رضا حاصل کرے. ۔ اسی میں اسکی کامیابی ہے ، جو احادیث میں بھی موجود ہے۔
ترجمہ : " یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا"
اپنی نفس پر قابو رکھ کر انسان اس درجہ کو پالینے کے قابل ہوجاتا ہے جو اسے حقیقتا" خلیفۃ اللہ کے منصب کا اہل بنا دیتا ہے۔ اس قانون کی پابندی خودی کی تکمیل کے لئے لازمی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارتا وہ لازما" کسی معاشرہ ، کسی قوم اور کسی ملت کا فرد ہوتا ہے۔ ۔ فرد کی مثال ایک قطرہ کی ہے اور ملت دریا کی طرح ہے ۔ مگر اقبال کی نظر میں یہ قطرہ ، دریا میں مل جانے کے بعد اپنی ہستی کو فنا نہیں کرڈالتا بلکہ اس طریقہ سے اس کی ہستی مزيد استحکام حاصل کرلیتی ہے ۔ وہ بلند اور دائمی مقاصد سے آشنا ہوجاتا ہے ۔ اس کی قوتیں منظّم اور مضبوط ہوجاتی ہیں اور اس کی خودی پائیدار اور لازوال بن جاتی ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
الغرض خودی کل کائنات کو تسخیر کرنے کا وہ راز ہے جو نفس انسان کو وہ مقام دلا سکتی ہے کہ خدا کی لازوال قدرت اسکو کامیابیوں کی نہ ختم ہونے والے راستے پر گامزن کردے اور اسکی خواہشات کو اسکی تقدیر کا حصہ بنا دے۔
خِردمندوں سے کیا پُوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ مَیں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
No comments:
Post a Comment