Go To Index
Unit-2 - Labours And People's Right
Reading Comprehension
Dignity Of Work
Chapter With Urdu Translation
Dignity Of Work
Akhtar came home late from school one day. He was feeling cross and looked untidy. When his mother asked him the reason, he did not answer. Everybody was surprised to find him so cross. As the family sat down to lunch, the children's favourite uncle, Mr. Inayat, came to visit them. The children were very happy to see him because he had been to many countries and always told them interesting stories.Translation In Urdu
محنت کی عظمت
محنت کی عظمت
ایک دن اختر اسکول سے دیر سے گھر آیا۔ وہ غصہ میں اور گندہ نظر آ رہا تھا۔ جب اس کی والدہ نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہر کوئی اسے اتنا غصے میں دیکھ کر حیران تھا۔ جیسے ہی سارے گھر والے دوپہر کے کھانے کو بیٹھے، تو بچوں کے ہر دلعزیزانکل جناب عنایت ان سے ملنے آگئے۔ بچے انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے کیونکہ وہ بہت سے ممالک میں جا چکے تھے اور ہمیشہ انہیں دلچسپ کہانیاں سنایا کرتے تھے۔۔
Akhtar's sister, Rukhsana, told Uncle Inayat that Akhtar had come home unhappy. Uncle Inayat looked at him and asked him what had happened.
Translation In Urdu
۔اختر کی بہن رخسانہ نے انکل عنایت کو بتایا کہ اختر ناخوش گھر آیا تھا۔ انکل عنایت نے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا ہوا؟
Akhtar: Uncle, we are having a social service week at school, so we all have to do the work of servants and gardeners. Today, the teacher made me dust the cupboards and desks.
Uncle: Is it work that makes you cross?
Akhtar: Should I not be cross if I am made to work like a servant?"
Uncle: Did your teacher do anything himself?
Translation In Urdu
اختر: انکل، ہم اسکول میں سماجی خدمت کا ہفتہ منا رہے ہیں، اس لیے ہم سب کو نوکروں اور باغبانوں کے کام کرنے پڑتے ہیں۔ آج، استاد نے مجھ سے الماریوں اور میزوں کی دھول صاف کروائی۔
انکل: کیا کام نے تم کو خفا کیا ہے؟
اختر: کیا مجھے ناراض نہیں ہونا چاہیے، اگر مجھے نوکر کی طرح کام کرنے پر مجبور کیا جائے؟
انکل: کیا تمہارے استاد نے خود کچھ کام کیا؟۔
انکل: کیا کام نے تم کو خفا کیا ہے؟
اختر: کیا مجھے ناراض نہیں ہونا چاہیے، اگر مجھے نوکر کی طرح کام کرنے پر مجبور کیا جائے؟
انکل: کیا تمہارے استاد نے خود کچھ کام کیا؟۔
Akhtar: Yes, he did, After taking out the desks and chairs, the teacher swept the room and emptied the dustbin. Even the headmaster cleaned the bathroom, which made us all feel ashamed.
Uncle: Is it a matter of shame to clean what we make dirty?
Aktatar: But think of a gentleman cleaning the bathroom. Shouldn't the sweeper do it?
Translation In Urdu
اختر: ہاں، انہوں نے کیا، میزیں اور کرسیاں باہر نکالنے کے بعد استاد نے کمرے میں جھاڑو دی اور کوڑے دان کو خالی کر دیا۔ حتی کہ ہیڈ ماسٹر نے غسل خانہ صاف کیا جس سے ہم سب کو شرمندگی محسوس ہوئی۔
انکل: جس چیز کو ہم خود گندا کرتے ہیں اسے صاف کرنا کیا شرم کی بات ہے؟
اختر: لیکن باتھ روم کی صفائی کرنے والے شریف آدمی کے بارے میں سوچیں۔ کیا یہ بھنگیوں کو نہیں کرنا چاہیے؟
انکل: جس چیز کو ہم خود گندا کرتے ہیں اسے صاف کرنا کیا شرم کی بات ہے؟
اختر: لیکن باتھ روم کی صفائی کرنے والے شریف آدمی کے بارے میں سوچیں۔ کیا یہ بھنگیوں کو نہیں کرنا چاہیے؟
Uncle: Is the sweeper not a human being?
Akhter: (softly) Yes, he is.
Uncle: Aren’t our servants human beings like us?
Akhter: I should say, they are.
Uncle: Then, we should treat them as we treat ourselves and should always be ready to do some of the chores that we ask them to do for us.
AKhter: But it looks so odd.
Translation In Urdu
انکل: کیا بھنگی انسان نہیں ہے؟
اختر: (دھیرے سے) ہاں، وہ ہے۔
انکل: کیا ہمارے نوکر ہماری طرح انسان نہیں ہیں؟
اختر: مجھے کہنا چاہیے، وہ ہیں۔
انکل: پھر، ہمیں ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا کہ ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں اور ہمیشہ ان میں کچھ کام کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے جو ہم ان سے اپنے لیے کرنے کو کہتے ہیں۔
اختر: لیکن یہ بہت عجیب لگتا ہے۔
اختر: (دھیرے سے) ہاں، وہ ہے۔
انکل: کیا ہمارے نوکر ہماری طرح انسان نہیں ہیں؟
اختر: مجھے کہنا چاہیے، وہ ہیں۔
انکل: پھر، ہمیں ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا کہ ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں اور ہمیشہ ان میں کچھ کام کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے جو ہم ان سے اپنے لیے کرنے کو کہتے ہیں۔
اختر: لیکن یہ بہت عجیب لگتا ہے۔
Uncle: Yes, perhaps it does. However, this is because we have forgotten the noble example of our last Holy Prophet (نبی صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم). He would never ask anyone to do anything that he, himself, would not do. He loved doing work for himself and for others. He repaired his own shoes, mended and washed his clothes, and swept his room. When the mosque was being built in Medina, he carried mud and building material, just like all others. During the battle of Khandaq, he joined his companions in digging the trench outside Medina.
Translation In Urdu
انکل: ہاں، شاید لگتا ہو۔ تاہم یہ اس لیے ہے کہ ہم اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم کی عظیم مثال کو بھول چکے ہیں۔ وہ کبھی کسی سے کوئی ایسا کام کرنے کو نہیں کہتے تھے جو وہ خود نہیں کرسکتے تھے۔ وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے کام کرنا پسند کرتے تھے۔ وہ اپنے جوتوں کی خود مرمت کرتے، اپنے کپڑے خود رفو کرتے اور دھوتے اور اپنے کمرے میں جھاڑو دیتے تھے۔ جب مدینہ میں مسجد کی تعمیر جاری تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم دوسرے تمام لوگوں کی طرح گارا اور تعمیراتی سامان اٹھا کر لاتے تھے۔ غزوہ خندق کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم مدینہ کے باہر خندق کھودنے کی مہم میں اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ شامل ہوگۓ۔
Rukhsana: Were his companions also like him, uncle?
Uncle: Yes, Rukhsana. Hazrat Abu Baker ( رضی اللہ تعالی عنہ) not only did his own work, but he also fetched water for widows and neighbours who were very old and had no one to do the work for them. Once, Hazrat Omar ( رضی اللہ تعالی عنہ) carried a large sack of flour for a needy family on his shoulders. Hazrat Ali ( رضی اللہ تعالی عنہ) Laboured in the garden of a Jew and gave away his wages in charity.
Translation In Urdu
رخسانہ: کیا آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم جیسے تھے، انکل؟
انکل: ہاں رخسانہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نہ صرف اپنا کام کرتے تھے بلکہ ان بیواؤں اور پڑوسیوں کے لیے بھی پانی بھر کر لاتے تھے جو بہت زیادہ بوڑھے تھے اور ان کے لیے کام کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک ضرورت مند گھرانے کے لیے آٹے کی ایک بڑی بوری اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاۓ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی کے باغ میں مزدوری کرتے تھے اور اپنی مزدوری خیرات کر دیتے تھے۔
انکل: ہاں رخسانہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نہ صرف اپنا کام کرتے تھے بلکہ ان بیواؤں اور پڑوسیوں کے لیے بھی پانی بھر کر لاتے تھے جو بہت زیادہ بوڑھے تھے اور ان کے لیے کام کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک ضرورت مند گھرانے کے لیے آٹے کی ایک بڑی بوری اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاۓ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی کے باغ میں مزدوری کرتے تھے اور اپنی مزدوری خیرات کر دیتے تھے۔
Rukhsana: I'm sure there must be many such other examples in our history.
Uncle: You are right, Rukhsana. Hazrat Fatima ( رضی اللہ تعالی عنہ) fetched water, ground corn, and swept the house. Caliph Omar bin Abdul Aziz refused to him a servant to help his wife. At the table, Caliph mamun-ur-Rashid served himself and his guests. Sultan Nasi-ud-din earned his living by making caps, and Emperor Aurangzeb by transcribing the Holy Quran.
Translation In Urdu
رخسانہ: مجھے یقین ہے کہ ہماری تاریخ میں ایسی اور بھی مثالیں ضرور ہوں گی۔
انکل: تم ٹھیک کہہ رہی ہو رخسانہ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پانی بھر کر لاتی، مکئی پیستیں، اور گھر میں جھاڑو دیتی تھیں۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اسے اپنی بیوی کی مدد کے لیے نوکر رکھنے سے انکار کردیا تھا۔ دسترخوان پر خلیفہ مامون الرشید اپنے اور اپنے مہمانوں کے لیے خود کھانا لگاتے۔ سلطان نصیر الدین ٹوپیاں بنا کر اور شہنشاہ اورنگ زیب قرآن پاک کی کتابت کر کے اپنی روزی کماتے تھے۔
انکل: تم ٹھیک کہہ رہی ہو رخسانہ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پانی بھر کر لاتی، مکئی پیستیں، اور گھر میں جھاڑو دیتی تھیں۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اسے اپنی بیوی کی مدد کے لیے نوکر رکھنے سے انکار کردیا تھا۔ دسترخوان پر خلیفہ مامون الرشید اپنے اور اپنے مہمانوں کے لیے خود کھانا لگاتے۔ سلطان نصیر الدین ٹوپیاں بنا کر اور شہنشاہ اورنگ زیب قرآن پاک کی کتابت کر کے اپنی روزی کماتے تھے۔
Akhter: But Uncle, all these are stories of the past.
Rukhsana: I guess, it, not a matter of past or present. Recently, I read in a newspaper the story of a business tycoon who does not have servants for doing his work He does all the work himself.
Uncle: Precisely, It is normal practice in an developed. countries, even today. They understand and appreciate the dignity of work, while we have forgotten it. In China everyone has to spend some time each year working in the fields or in a factory. Even the Prime Minister and his wife do this work. They believe that everyone ought to work, hence, no wonder, they are making such quick progress.
Translation In Urdu
اختر: لیکن انکل، یہ سب ماضی کے قصے ہیں۔
رخسانہ: میرا خیال ہے کہ یہ ماضی یا حال کا معاملہ نہیں ہے۔ حال ہی میں، میں نے ایک اخبار میں ایک بزنس ٹائیکون کی کہانی پڑھی جس کے پاس اپنے کام کرنے کے لیے نوکر نہیں ہوتے وہ سارے کام خود کرتا ہے۔
انکل: بالکل درست، ترقی یافتہ ممالک میں یہ آج بھی معمول کی بات ہے۔ وہ کام کی عظمت کو سمجھتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، جبکہ ہم اسے بھولا چکے ہیں۔ چین میں ہر ایک شخص کو ہر سال کچھ وقت کھیتوں یا فیکٹری میں کام کرنا پڑتا ہے۔ حتی کہ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ بھی یہ کام کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سب کو کام کرنا چاہیے، اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، وہ اتنی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔
رخسانہ: میرا خیال ہے کہ یہ ماضی یا حال کا معاملہ نہیں ہے۔ حال ہی میں، میں نے ایک اخبار میں ایک بزنس ٹائیکون کی کہانی پڑھی جس کے پاس اپنے کام کرنے کے لیے نوکر نہیں ہوتے وہ سارے کام خود کرتا ہے۔
انکل: بالکل درست، ترقی یافتہ ممالک میں یہ آج بھی معمول کی بات ہے۔ وہ کام کی عظمت کو سمجھتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، جبکہ ہم اسے بھولا چکے ہیں۔ چین میں ہر ایک شخص کو ہر سال کچھ وقت کھیتوں یا فیکٹری میں کام کرنا پڑتا ہے۔ حتی کہ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ بھی یہ کام کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سب کو کام کرنا چاہیے، اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، وہ اتنی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔
Akhtar: Well, China Is a different type of country.
Uncle: Agreed. But what about the USA? There, I once stayed with a high government official, as a guest. His son, who was just as old as you are, went out early in the morning deliver newspapers, I asked him why he did so. He said it was simply because he wished to be independent. One day, when he was ill, his father went out deliver the papers so that his son would not lose his customers. Once, the President’s son took the job of white washing rooms in a hotel.
Translation In Urdu
اختر: ٹھیک ہے، چین ایک مختلف قسم کا ملک ہے۔
انکل: متفق ہوں۔ لیکن امریکہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہاں میں ایک مرتبہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے ہاں بحیثیت مہمان ٹھہرا۔ اس کا بیٹا اتنی عمر کا تھا جتنے اب تم ہو، صبح سویرے وہ اخبار بیچنے جاتا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ صرف اس لیے کہ وہ خود مختار ہونے کا خواہشمند ہے۔ ایک دن، جب وہ بیمار تھا، اس کے والد اخبار پہنچانے گئے تاکہ ان کا بیٹا اپنے گاہکوں سے محروم نہ ہو۔ ایک بار صدر کے بیٹے نے ایک ہوٹل میں رنگ کا کام کیا۔
انکل: متفق ہوں۔ لیکن امریکہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہاں میں ایک مرتبہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے ہاں بحیثیت مہمان ٹھہرا۔ اس کا بیٹا اتنی عمر کا تھا جتنے اب تم ہو، صبح سویرے وہ اخبار بیچنے جاتا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ صرف اس لیے کہ وہ خود مختار ہونے کا خواہشمند ہے۔ ایک دن، جب وہ بیمار تھا، اس کے والد اخبار پہنچانے گئے تاکہ ان کا بیٹا اپنے گاہکوں سے محروم نہ ہو۔ ایک بار صدر کے بیٹے نے ایک ہوٹل میں رنگ کا کام کیا۔
Rukhsana: Well, this is, indeed, very inspiring.
Uncle: In fact. in many countries today, people doing all kinds of jobs are respected and treated equally, and no person is considered superior or inferior just because of their job. Many heads of states, successful business leaders, and celebrities follow this philosophy.
Akhtar: Thank you, uncle. You always teach us something useful. Indeed, these examples are extremely motivating. They have really made me think. I was wrong to be upset about cleaning my own classroom. Now, I have learnt that no work is menial or low as long as it is honest, and all workers should be respected without discrimination. I will now never feel ashamed of doing anything, even if it means doing cleaning work or sweeping the floor. Respect for all honest work will be the motto of my life.
Translation In Urdu
رخسانہ: ٹھیک ہے، یہ واقعی بہت متاثر کن ہے۔
انکل: درحقیقت، آج کل بہت سے ممالک میں، ہر قسم کی نوکری کرنے والے لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے، اور کسی بھی شخص کو صرف اس کے کام کی وجہ سے برتر یا کمتر نہیں سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے سربراہان مملکت، کامیاب کاروباری رہنما، اور مشہور شخصیات اس فلسفے کی پیروی کرتے ہیں۔
اختر: شکریہ انکل۔ آپ ہمیں ہمیشہ کچھ مفید چیز سکھاتے ہیں۔ بے شک، یہ مثالیں انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ انہوں نے واقعی مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ میرا اپنی کلاس روم کی صفائی کے بارے میں ناراض ہونا غلط تھا۔ اب، میں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ کوئی بھی کام اس وقت تک معمولی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ ایمانداری سے کیا جاۓ، اور تمام کام کرنے والوں کی بلا تفریق احترام کیا جانا چاہیے۔ اب میں کبھی بھی کوئی کام کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کروں گا، چاہے وہ صفائی کا کام کرنا ہو یا فرش صاف کرنا۔ تمام ایمانداری سے کیے گۓ کام کا احترام میری زندگی کا نصب العین ہوگا۔
انکل: درحقیقت، آج کل بہت سے ممالک میں، ہر قسم کی نوکری کرنے والے لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے، اور کسی بھی شخص کو صرف اس کے کام کی وجہ سے برتر یا کمتر نہیں سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے سربراہان مملکت، کامیاب کاروباری رہنما، اور مشہور شخصیات اس فلسفے کی پیروی کرتے ہیں۔
اختر: شکریہ انکل۔ آپ ہمیں ہمیشہ کچھ مفید چیز سکھاتے ہیں۔ بے شک، یہ مثالیں انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ انہوں نے واقعی مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ میرا اپنی کلاس روم کی صفائی کے بارے میں ناراض ہونا غلط تھا۔ اب، میں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ کوئی بھی کام اس وقت تک معمولی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ ایمانداری سے کیا جاۓ، اور تمام کام کرنے والوں کی بلا تفریق احترام کیا جانا چاہیے۔ اب میں کبھی بھی کوئی کام کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کروں گا، چاہے وہ صفائی کا کام کرنا ہو یا فرش صاف کرنا۔ تمام ایمانداری سے کیے گۓ کام کا احترام میری زندگی کا نصب العین ہوگا۔
Please upload full translation
ReplyDeleteDone
DeleteJAZAKALLAH