Search This Blog

Monday, 4 February 2019

شجر کاری کے جدید طریقے

شجر کاری کے جدید طریقے


 ہم تو محروم ہیں سایوں کی رفاقت سے مگر
آنے والوں کے لئے پیڑ لگادیتے ہیں

       ماحول کو درست رکھنے میں درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ جہاں درخت ماحول کی خوبصورتی کا سبب بنتے ہیں وہاں ہوا کو صاف رکھنے‘ طوفانوں کا زور کم کرنے‘ آبی کٹاﺅ روکنے ‘ آکسیجن میں اضافے اور آب و ہوا کے توازن برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کرۂ ارض کی تپش بڑھتی جا رہی ہے اور ماحولیاتی ماہرین کے مطابق مستقبل میں عالمی درجہ حرارت میں  مزید اضافہ کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں جس کے خطرناک نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہے. چناچہ ان عوامل پر قابو پانے کے لئے شجرکاری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا. 

      شجرکاری قدیم زمانے سے ہی ایک اہم شعبہ رہا ہے۔ جس میں وقت کے ساتھ   جدید مشینریوں نے آسانیاں پیدا کردی.  کسانوں کے لئے درخت لگانا مشکل نہیں ہے البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ کب ، کہاں اور کیسے بہتر پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے. جیسے جدید تحقیق کے مطابق جس زمین میں الکلی کی مقدار زیادہ ہو اس میں سفیدہ لگانے سے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں سفیدہ کے درخت  زائد الکلی جذب کر لیتے ہیں  جس کے نتیجے میں زمین کی زرخیزی اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے

      شجرکاری کا ایک طریقہ جو کہ پوری دنیا میں بہت مقبول ہے وہ فارم ہاؤس کی تعمیر ہے. ملک کے مختلف مقامات پر فارم ہاؤس  تعمیر کیے جاتے ہیں جو کہ پوری طرح شجرکاری کا مظہر ہوتے ہیں. صنعتی شجرکاری کے تحت جنگلات کا تحفظ کیا جاتا ہے. شجرکاری کے جدید طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کچھ خاص پودوں کو جن سے  فوائد حاصل ہو سکتے ہیں انہیں دوسرے ممالک سے منگوا کر لگایا جاتا ہے شجرکاری کا ایک طریقہ آرائشی پودوں کے ساتھ پارکوں کی تعمیر ہے اسکے تحت مختلف مقامات پر تعمیر کی جاتی ہیں اور ان میں طرح طرح کی  آرائشی پودے لگائے جاتے ہیں

   اس کمپیوٹرائزڈ دور میں شجرکاری کے لۓ بہت ساری دلچسپ نئی ٹیکنالوجیز آگئ ہیں.  جیسے:  سلیکو کاشتکاری، ڈرون کا استعمال، خود ڈرائیور ٹریکٹرز. لیکن ہر طریقۂ کارآمد نہیں ہے. ۔ سلیکو ایک ایسی  کمپیوٹر ایپ ہے جس میں سائنسدان بہترین فصل اگانے کے لئے مختلف آب و ہوا اور عوامل میں فصل کے اگنے کا جائزہ لیتے ہیں

    كامياب شجركارى كا ایک جدید طریقہ پرماکلچر ہے جس میں سوراخ دار  گھڑے کو گردن تک پانی سے بھر کر مٹی میں برابر کرکے دبا دیتے ہیں. اور پھر گھڑے کے دائرے کے چار طرف (.یا قطار میں)  میں چار پودے لگا دیتے ہیں.چالیس دن میں گھڑا صرف ایک بار بھرنا ہوتا ہے. یہ دیسی ڈرپ ایریگیشن سسٹم پودے کو اپنی ضرورت کا پانی اسکی جڑ تک دیتا رہتا ہے اور چھ مہینے کے عرصے میں یہ پودا درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔
       یہی نہیں اب سائنسدانوں نے ڈرون کے ذریعے شجر کاری کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔  اس سے قبل سری لنکا میں ہیلی کاپٹر سے شجر کاری کرنے کا تجربہ کیا گیا تھا جو نہایت کامیاب رہا۔  اس ہیلی کاپٹر سے جاپانی کسانوں کے ایجاد کردہ طریقہ کار کے مطابق چکنی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے گولے پھینکے گئے جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اگ آئے۔ اب اسی خیال کو مزید جدید طریقے سے قابل عمل بنایا جارہا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک برطانوی کمپنی ایسا ڈرون بنانے کی کوشش میں ہے جو شجر کاری کر سکے۔  یہ ڈرون فضا سے زمین کی طرف بیج پھینکیں گے جس سے ایک وسیع رقبے پر بہت کم وقت میں شجر کاری کا عمل انجام دیا جا سکتا ہے۔  اس طریقہ کار کے مطابق سب سے پہلے یہ ڈرون کسی مقام کا تھری ڈی نقشہ بنائے گا۔ اس کے بعد ماہرین ماحولیات اس نقشے کا جائزہ لے کر تعین کریں گے کہ اس مقام پر کس قسم کے درخت اگائے جانے چاہئیں. اس کے بعد اس ڈرون کو بیجوں سے بھر دیا جائے گا اور وہ ڈرون اس مقام پر بیجوں کی بارش کردے گا۔ یہ ڈرون ایک سیکنڈ میں 1 بیج بوئے گا۔ گویا یہ ایک دن میں 1 لاکھ جبکہ ایک سال میں 1 ارب درخت اگا سکے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے شجر کاری کے مقابلے میں یہ طریقہ 10 گنا تیز ہے جبکہ اس میں رقم بھی بے حد کم خرچ ہوگی۔

         ہیلی کاپٹر اور ڈرونوں کی لائنوں کے ساتھ - ابھرتی ہوئی زرعی ٹیکنالوجیوں کی فہرست میں خود مختار ٹریکٹر کا ایک  ااہم کردار ہے.  خود مختار فارم ٹریکٹر  بغیر ڈرائیور کے فصلوں اور کھیتی کا معائنہ کرتا ہے.  اور کھاد اور بیجوں کو منتشر کرتا ہے . مستقبل کے ٹریکٹر میں  کیمروں، رڈار، جی پی کے ساتھ لیس ہونگے اور حفاظت کے لئے رکاوٹ کا پتہ لگانے کی اہلیت بھی رکھتے ہونگے

           شجرکاری کے ان جدید طریقوں کے استعمال سے دنیا بھر میں شجرکاری کے عمل کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ آنے والی گلوبل وارننگ سے نمٹا جاسکے اور  یہ امید کی جارہی ہے کہ اس سے  ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے میں مدد حاصل ہوگی. شجرکاری کی اہمیت کے پیش نظر پاکستان میں بھی شجرکاری کے جدید طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے شجر کاری کو فروغ دیا جا رہا ہے. ہر سال پاکستان میں باقاعدہ شجرکاری کی مہم چلائی جاتی ہے جس میں حکومت اور عوام کے تعاون سے لاکھوں کی تعداد میں مختلف مقامات پر درخت لگائے جاتے ہیں.

ایک دو پیڑ سہی ،کوئي خیاباں نہ سہی
اپنی نسلوں کے لئے کچھ تو بجایا جائے 

امین عاصم


Thursday, 31 January 2019

Pakistan Super League 2018 Or PSL3

Pakistan Super league 2018 or PSL3


The Pakistan Super League is a professional Twenty 20 cricket franchise league. The league was founded in Lahore on 9th September 2015 with five teams and now comprises of six teams.

The PSL season runs between the months of February and March. with each team playing 10 matches in double round robin format. The top four teams with the best record qualify for the playoffs and culminate in the championship game, the PSL Cup Final. The Former champions were Islamabad United and Peshawar Zalmi . The current champions are Islamabad United, who won the title on 25 March 2018 in Karachi.

Pakistan Super League 2018 or PSL3 was the third season of the Pakistan Super League. PSL3 featured six teams (Karachi Kings, Islamabad Untied, Lahore Qalendars, Peshawar Zalmi, Quetta Gladiators and Multan Sultan) and was held from 22nd February, 2018 to 25th March, 2018. The group stage took place in the United Arab Emirates with two playoffs matches played in Lahore and the final at the National Stadium, Karachi. The player draft for the 2018 season was held in Lahore on 12 November 2017. 501 players including both Pakistani and international players were divided into five different categories. Each franchise was allowed to pick a maximum of seven foreign players in their squads which could have a maximum of 21 members.

Every team played each other twice and the top four teams Islamabad United, Karachi Kings, Quetta Gladiators and Peshawar Zalmi qualified for a series of playoff games while Lahore Calendars and Multan Sultans failed to qualify for playoff stage. The top 2 teams Islamabad United and Karachi Kings played the first qualifier in which Islamabad United beat Karachi Kings by 8 wickets. The next two teams Peshawar Zalmi and Quetta Gladiators played an eliminator in which Peshawar Zalmi beat Quetta Gladiators by 1 run. The loser of the first qualifier Karachi Kings and the winner of the eliminator Peshawar Zalmi met in the second qualifier Match. Peshawar won by 13 runs.

The final took place on 25 March 2018 at National Stadium in Karachi. Pakistan. The tickets for final were sold out within 3 hours. Peshawar Zalmi won the toss and elected to bat first and set a target of 149 for Islamabad United. Islamabad United chased the target in 17th over with the loss of seven wickets and earn the title of PSL3 Champion. Luke Ronchi received the "Man of the Match" for his brilliant batting.


Wednesday, 30 January 2019

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

یہ کلام عبدالمجید سالک کی ہے جو انہوں نے 1935ءمیں کہی تھی۔ 

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰة ہے

اس مصرعے کے متبادل دنیا کی ہر زبان، ہر مذہب اور ہر تہذیب میں موجود ہوں گے کیونکہ ہر قوم کو اپنی بقا کے لیے اور ہر تحریک کو اپنی نمود کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں، یقینی موت کے طرف لپکیں اور اپنی زندگی دے کر قوموں کو اور تحریکوں کی نظریات کو دوام بخشیں۔

اسلام میں  فلسفہ شہادت کافی واضح ہے- اللہ تعالی کے نزدیک شہادت بلند ترین اعزاز ہے - سورہ آل عمران آیت نمبر 157 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ  

" اگر تم اللہ کے راستے میں مرجاؤ یا مارے جاؤتو جو (مال و متاع) لوگ جمع کرتے ہیں 
اس سے اللہ کی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے"  


 وطن کی مٹی اپنی حفاظت کے لۓ  قربانی مانگتی ہے  اور قربانی بھی ایسی   جو ہر ایک کی بس کی بات نہیں  یہ قربانی صرف وہی لوگ  دیتے ہیں یا دے سکتے ہیں جن کو اپنی دھرتی سے پیار ہوتا ہے  اور وہ ملک کی آزادی کو ترجیح د یتے ہوۓ اپنی جان اور مال  وطن پر نثار کرتے ہیں  کچھ تو شہادت کے رتبہ میں فاءز ہوتے ہیں اور کچھ غازی بن جاتے ہیں ۔     دشمن کے گولے کو یہ پہچان نہیں ہوتی ہے کہ کون ہے, کہاں کا ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وطن کے  لۓ جام شہادت نوش کرنے والے کے لۓ ذات, قبیلہ, فرقہ کوئی معانی نہیں رکھتا.  وہ اپنے ملک کی آن اور شان اور اس کی آزادی کی خاطر  صرف ایک ہی جذبہ رکھتا ہے اور وہ  جذبہ, وہ عزم, وہ لگن  وطن کا تحفظ اور حفاظت ہے


خونِ دل دے کے نکھاریں گےرُخِ برگِ گلاب

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

ان ماؤں اور باپوں  کو سلام جو ایسے سپتوں کو پروان چڑھاتی ہیں اور وقت آنے پر  اپنا آخری سہارا وطن  کی حفاظت کے  لۓ  بطور نذرانہ پیش کر دیتے ہیں اور اف تک نہیں کرتے  کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ  شہید زندہ و جاوید ہوتے ہیں ۔یہ ایک عظیم رتبہ ہے  جو قسمت والوں کو ہی ملتا ہے   جن کی  مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے

 اس کی اہمیت اسلام کے آغاز میں  اس واقعہ  سے واضح ہوجاتی ہے ۔احد کے میدان میں حضرت مصعب رضی اللہ عنہ زمین پر شہید پڑے تھے  اسی دن  حضور کا جھنڈا  انہی کے ہاتھ میں تھا اور حضور ﷺ  حضرت مصعب بن عمیر  رضی اللہ عنہ کے پاس   کھڑے تھے  اس وقت رسول خدا نے ایک آیت پڑھی تھی ۔جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔
" ایمان والوں  میں کچھ مرد ایسے ہیں  کہ انہوں نے  جس بات کا اللہ سے عہد کیا تھا 
 اسے سچ کر دکھلایا  پھر بعض  تو ان میں سے  وہ ہیں جنہوں نے اپنا ذمہ پورا کر لیا 
 اور بعض ان میں سے اللہ کے راستے مین جاں قربان کرنے کے لۓ  راہ دیکھ رہے ہیں
  اور وہ ذرہ برابر  نہیں بدلے"

پاک فوج کو پاکستان کی بنیاد پڑتے ہی ابتداءمیں اپنی پیشہ وارانہ خدمات ملک کی خاطر پیش کرنے کی ضرورت پڑگئی۔آزادی حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کے قافلے ہجرت کرکے پاکستان کی جانب رواں دواں ہوئے تو ہندواور سکھوں نے مسلمانوں مہاجروں کاقتل عام شروع کیا۔۔ پاکستان کی نوزائیدہ فوج  نے وطن عزیز کے دفاع اورملک کو دشمن  کے چنگل سے آزاد کرانے کی خاطر  لبیک کہا اور اس جنگ میں بھی متعد فوجی شہید ہوئے۔  1965ئ کی جنگ, 1971ءکی جنگ میں صف آرائی، کارگل کے محاذ اور اب 2001ءسے جاری دہشت گردی کےخلاف جنگ میں دشمن کی جارحیت کا مکمل جوش وجذبے سے جواب دینے کی خاطر ہزاروں فوجیوں نے شہادت کا رتبہ پایا۔ قوم کو ان شہیدوں پر فخر ہے۔ کیونکہ انہوں نے ہمارے بہترمستقبل کی خاطر اپنا تن من دھن وطن عزیز پر قربان کردیا۔ ان جانثار سرفروشوں کو ایک ہی لگن تھی کہ وہ ملک وقوم کی خاطر رتبہ شہادت حاصل کریں۔ بقول علامہ اقبالؒ

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

قوم کے وہ جوان  جو ضرورت پڑنے پر سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن رزمگاہ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں ،آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں، تو ان میں کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتا ہیں۔ عرض هے كه 
زکوٰة دے اگر کوئی زیادہ ہو تو نگری

بکھیر دے اناج اگر تو فصل ہو ہری بھری
چھٹیں جو چند ڈالیاں نموہو نخل طاق کی
کٹیں جو چند گردنیں تو قوم میں ہوزندگی

اور ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے ہر ذی روح کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے تو کیوں نہ اپنی جان اللہ کے راستے قربان کرنے کے لۓ ہر دم تیار رہیں۔

تمہاری ضو سے دل نشین جبین کائنات ہے
بقا کی روشنی ہو تم پناہ اندھیری رات ہے
شہید کی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوۃ ہے


Monday, 28 January 2019

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے | "اتحاد و اتفاق" قوم کا سر چشمہ ہے | پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ | قوم مذہب سے سے مذہب جو نہیں تو تم بھی نہیں | قومی اتحاد | اتحاد کی برکتیں | قومی زندگی میں نظم و ضبط کی اہمیت |فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
"اتحاد و اتفاق" قوم کا سر چشمہ ہے
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
قوم مذہب سے سے مذہب جو نہیں تو تم بھی نہیں
قومی اتحاد
اتحاد کی برکتیں
قومی زندگی میں نظم و ضبط کی اہمیت/
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں/


منفعت ایک ہے اِس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

علامہ اقبال کا یہ مصرعہ بنیادی طور پر قرانِ پاک کی آیت،
 'واعتصموا بحبل اللہ ِ جمعیاولاتفرقوا'
 ( اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرفہ میں نہ پڑو۔)… کا عملی ترجمہ ہے۔
 کیونکہ فی زمانہ ہم مسلمان جس قدر فتنہ و تفرقہ بازی کا شکار ہیں۔ اس سے قبل نہیں رہے۔  دورِ حاضر اپنی جدید ٹیکنالوجیوں کی وجہ سے تفرقے کے جن کو تباہ کن حد تک خوفناک بنا چکاہے۔ ہم ٹکڑے ٹکڑے مسلمان، بکھری بکھری اُمّت، کٹی پھٹی قوم، اُجڑی پُجری جمعیت، تنکا تنکا ہوکر طوفانِ حوادث کا شکار ہوچکے ہیں۔

  علامہ اقبالؒ کے اِ س مصرع کا پورا شعر  یوں ہے،

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر

 جو اس بات کی طرق اشارہ کرتا ہے کہ حرم کی پاسبانی سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ مسلمان خانہ ء کعبہ کو کفار کے غلبہ سے چھڑانے کے لیے ایک ہوجائیں۔ کیونکہ بیت اللہ…… وہ خانہء مقدس ہے جس کی حفاظت اُس گھر کے مالک کی اپنی ذمہ داری جیسے اُس نے ابرہہ کے لشکر سے اپنے گھر کو محفوظ رکھا تھا۔سو اگر اس شعر کے حقیقی مفہوم تک پہنچنا ہے تو ہمیں مسلم اُمہ کی ترکیب کو سمجھنا ہوگا۔ 

اقبالؒ نے ہی کہا تھا،

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ جب عالمِِ اسلام کے ماضی کی طرف نظر دوڑائی جائے تو اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے کئی صدیوں تک اس دنیا پر راج کیا جس کو دیکھ کر سب رشک کر تے ہیں۔ بحثیت مسمان ہم سب حضرت محمدﷺ کے امتی ہیں ۔اور ہمارا ماضی بھی اسی لیے شاندار تھا کہ ہم نے اپنے نبی ﷺکی پیر وی کی اور ان کے احکامات پر عمل کیا 
 لیکن افسوس آج اس دینِ محمدیﷺ کو دنیا بھر میں فساد کی علامت سمجھا  جاتاہے ۔لوگ مسلمان قوم کا مذاق اُڑاتے ہیں اور مسلمان لفظ سن کر شدت پسندی کو اپنےذہنوں میں لے آتے ہیں ۔دنیابھر میں مسلمان اپنا تاریخی مقام کھو چکے ہیں ۔ ہم تعداد میں بھی اتنے ہی ہیں جتنے پہلے تھے اور آج دنیا کے ہر کونے میں مسلمان موجود ہیں ۔لیکن کیا وجہ ہے کہ آج ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود کمزور ہیں . ۔ آقا دو عالم ﷺ کے بعد مسلمان فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور ایک دوسرے کو کافر کہہ کر مارنا شروع کر دیا اور آج یہ صورت حال انتہائی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے ۔ مسلم ممالک میں فرقہ پرستی لاکھوں لوگوں کی جان لے چکی ہے

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عزت ہمیں واپس مل جائے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ مسلم نشاۃِ ثانیہ کا اقبالی خواب پورا ہوجائے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بروزِ حشر کالی کملی والے کی نگاہوں میں سُرخرو ہوجائیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ  انسانیت کے اُمتِ واحدہ ہونے کی تمنائے ربانی کبھی پوری ہوجائے،اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ سموات اور یہ سیارے انسان کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ عالم ِ بشریت عالم ملوکیت کے سامنے سُرخرو ہوجائے،  اگر ہم چاہتے ہیں بطور پاکستانی دنیا میں ہمارا سر فخر سے بلند ہو نہ کہ شرم سے جھکے ، اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان سنور جائے، سدھر جائے، ہم سب سنور جائیں، سدھر جائیں، زندگی میں چین آئے، بہار آئے، غنچے کھلیں، پھول مہکیں، بہاریں ناچیں، فضائیں مسکرائیں، امن ہو، انصاف کا پرچم بلند ہو، تعلیم ہو ، صحت ہو، ایمانداری ہو، خلوص ہو، ایمان ہو، جذبہ ہو اگرہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کردیں  مگر یہ اسی وفت ممکن ہے جب ہم اپنے آپس کے اختلاقات کی آگ کو محبت و اخوت کے ٹھنڈے چشموں سے بجھا کر ایک ہوجائے اوراللہ پر توکل کریں
ہماری تہذیب کے مظاہر جمیل بھی تھے جلیل بھی تھے 
اگر تھے ابرِ بہار اپنے قلم تو تیغِ اصیل بھی تھے
مگر بتدریج اپنی عظمت کے ان منازل سے ہٹ گئے ہم
بہت سے اوہام اور اباطیل کے گروہوں میں بَٹ گئے  ہم

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ہی ہم ان گہری کھائیوں میں گرنے سے بچ سکتے ہیں۔جو مغربی تہذیب کی شکل میں ہمارے تمام تر اثاثوں کو چاٹتی جارہی ہے۔ قرانِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔
’’کان الناس اُمۃ واحدہ‘‘
"تمام انسان ایک اُمت ہیں"۔
   ملتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ سے حقیقی مراد انسانی عظمت اور سربلندی  کے آفتاب کا طلوع دائمی ہے۔ ملّتِ اسلامیہ کا مقصود ہی یہی ہے۔ بقول اقبالؒ:۔

تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم
مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم؟

 اسلام کا مقصود ہی جب ملتِ انسانیہ کا قیام ہے تو پھر کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم۔ سوال ہے تو صرف اتنا کہ انسانیت کا جو حصہ قرآن و حدیث کے ساتھ جڑا ہوا ہے یعنی مسلم اُمہ،  وہ نہایت خستہ حالی کا شکار ہے۔ اور ضرورت ہے تو اس امر کی تمام مسلمان آپس کے اختلافات کو ترک کرکے ایک قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے اپنے اخلاقِ حسنہ کا مظاہرہ کریں او ر ایک مرتبہ پھر دنیا کی رہنمائی کا اپنا بھولا ہوا سبق یاد کریں۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، شجاعت کا ، امانت کا
لیا جائیگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا


یا



یا




Saturday, 26 January 2019

English IX - Chapter No.11 - Questions / Answers and Text Book Exercise & MCQs

Go To Index
 (Old Book)

Rain

Questions and Answers


Q.1: Why does the poet call the rain beautiful?
Ans: In summer the extreme heat makes every living thing uneasy, the rain washes away the dust as it gushes down the streets and lanes.and brings comfort for them. So the poet calls the rain "beautiful "

Q.2: When it rains?
Ans: It rains after a wind blows and heat increases, as it is a geographical effect which is generally witnessed.

Q.3: Where it rains?
Ans: It rains everywhere, it rains in the broad and fiery streets, narrow lane,  the fields and on the houses it pours water everywhere and makes everything wet.

Q.4: Why the poet says," it clatters along the roof."?
Ans: When it rains the drops of water fall on the roofs and make a peculiar sound made by the hoofs of horse which the poet says'" clattering along the roofs."

Q.5: What does the poet means by saying, "how it gushes and struggles out."?
Ans: When it rains the rainy water begins to flow to the slope rapidly. The poet means the same by saying," How is gushes and struggles out.

Q.6: What the does the poet see across the window - pane?
Ans: The poet sees rain across the window - pane.  He sees the rainy water pouring the streets, lanes, fields and everything.

Q.7: what is there with the rainy water?
Ans: When if rains, the rainy water makes the soil wet and soft, it mixes with the water and flows with it, which the poet calls," muddy tide."

Q.8: Why the gutter roars?
Ans: As it rains heavily, the rainy water flow towards the slope. When it comes from all sides together, it makes force and sound and it seems that a river is flowing and roaring.

Q.9: Why is the rain compared to a river?
Ans: The rain water is compared to a river because rainwater forms a broad and muddy
stream as it flows down the gutter.

Q.10: What is the theme of the poem?
Ans: The theme of the poem is RAIN.

Q.11: Why does the poet say that rain is welcome?
Ans: As the land had been too dry and the weather is too hot due to summer season. When the rain comes and falls  on the window pane, this rain water filled with mud it looks like a river roaring down. He feels overjoyed  and welcomes it with open arms.

Q.12: which two words or phrases does the poet use to describe the rain ?
Ans: The two phrases are:
How beautiful is the rain!
How it clatters along the roofs!

Exercise

Questions:

1.Compare the summer rain in this poem to the summer rain in your native town.
Ans: As poet said in poem Summer season  is very hot and lands and street are fiery. When rain comes it bring happiness  with fresh breeze and reduce dust and decrease heat. But In our town summer rain is small because processes capable of lifting the air are weak and infrequent .
Secondly drainage system in our town is not good so it create  problems rain water stand on streets and dirt and mud make the environment much messy. Although rain is really give beautiful view and comfort in summer.

2. The sound of some of the lines fits the meaning very well. Which lines are they?  Or 
    What is the sound of the rain compared to?
Ans: The sound of the rain is compared to the tramp of hoofs. In the following lines poet compare the sounds of the rain on the roof to the noise made by the horse's hoofs.
How is the clatters along the roof
Like the tramp of hoofs!

3. Why is the street called "fiery"?
Ans:  The street describe as "fiery" because in summer season its surface is very hot and give feelings of burning. So This burning street needs the rain to cool its surface.

Multiple Choice Questions (MCQs)

Choose The Correct Answer For Each Of The Following:

1. The poem "Rain in summer" is written by:
(a)  H.W. longfellow ✔
(b) G.A. Allana
(c) Elsa Kazi
(d) Shakespeare

2. To the poet, the rain is:
(a) troublesome
(b) beautiful ✔
(c) heavy
(d) ugly

3. The beautiful rain comes after the:
(a) marriage
(b) winter
(c) dust and heat ✔
(d) Gala day

4. the streets are:
(a) narrow  ✔
(b) dirty
(c) deserted
(d) broad and fiery

5. Along the roof clatters:
(a)  the rain ✔
(b)  a cat
(c)  a ghost
(d)  none

6. The rain clatters along the roofs like: 
(a) a rat
(b) tramp of hoofs ✔
(c) a cat
(d) a ghost

7. Across the window - pane, the poet enjoys the scene of a:
(a) garden
(b) railway carriage
(c) a rainy day ✔
(d) hilly tract

8. The rain pours the streets, the lanes, the fields with:
(a) good smell
(b) flowers
(c) greenery
(d) mud✔

9. The rainy water flows like:
(a) a river  ✔
(b) an ocean
(c) lake
(d) stream

10. the rain is:
(a) neglected
(b) welcomed ✔
(c) disdained
(d) disliked



Friday, 25 January 2019

English IX - Chapter No.11 - Words / Meaning and Summary & Reference to Context

Go To Index
Rain In Summer

Words And Meaning



S.NoWordsMeaning
1.BroadLarge, Wide
2.ClattersMakes unpleasant sound
3.DustPowdered earth
4.FieryToo hot, Hot like fire, Acting like Fire
5.GushesFlows with force
6.GutterPassage for water flow, Channel at side of street, Carrying off rain water.
7.HoofsHard foot of a horse
8.LaneStreet
9.NarrowNot wide
10.SpoutThrow out in a jet, A pipe fixed on the side of a roof to let rain water comes down.
11.SwiftSpeedy
12.TideRise and fall of water level
13.TrampHeavy tread
14.WideExtending far
15.Window- PaneWindow glass
15.Like the tramp of hoofsThis is a comparison. The poet compares the sound of rain on the roof to the noise made by the horse hoofs


About The Poet

     This lovely poem about children is written by the American poet Henry Longfellow. He was born in 1807 and died in 1882. He was a Professor at the Harvard University, which is considered to be one of the best American universities. He was very interested in the culture of other countries and had traveled widely. His poems deal with not only the American scene but also much of what he saw during his travels.

Short Note Or Summary Of  "Rain In Summer"

H.W. Longfellow (1807-82)'s poem 'Rain in Summer' is truly a love letter about nature.  In this poem, he describes the scene of a rainy day in summer season. The extreme heat makes every living things exhausted and tired.  Before it comes, there is a dusty wind. when it rains everybody is happy and welcomes it. Poet exclaimed with joy that the rain is beautiful. He talks about how it the drizzle and shower relieves him from the heat and dust of the summer.
 The poet also compares the rain with the hoofs of the horses, to give us an image of the rhythm and sound of the raindrops on the roof.  The rainy water pour every place and makes everything wet. It flows like a stream making a loud noise. He feels overjoyed about the rain, and welcomes it with open arms.

Rain In Summer


[This lovely poem about Rain in summer is written by the American poet Henry Longfellow. He was born in 1807 and died in 1882. He was a Professor at the Harvard University, which is considered to be one of the best American universities. He was very interested in the culture of other countries and had traveled widely. His poems deal with not only the American scene but also much of what he saw during his travels.]


How beautiful is the rain!
After the dust and heat,
In the broad and Fiery Street,
In the Narrow lane,
How beautiful is the rain!

How is clatters along the roofs,
Like the tramp of hoofs!
How it gushes and struggles out
From the throat of the overflowing spout!

Across the window-pane
It -pours and pours;
And swift and wide,
With a muddy tide,
Like a river down the gutter roars
The rain, the welcome rain!

- Henry Longfellow


Reference To Context

Text Book Name: Secondary Stage English Book One For Class IX

Explain With Reference To Context (Poem)

How beautiful is the rain!
After the dust and heat,
In the broad and fiery street,
In the narrow lane,
How beautiful is the rain!
(i)
(ii)
(iii)
Ans:
(i)
(ii)
(iii)

Stanza No.2

How it clatters along the roofs,
Like the tramp of hoofs
How it gushes and struggles out
From the throat of the overflowing spout! 
(i) Name the poem and the poet / poetess.
(ii) Why the poet / poetess says, " it clatters along the roofs,"?
(iii) What does the poet / poetess mean by saying, "How it gushes and struggles out"?
Ans:
(i) This stanza is taken from the poem "Rain In Summer", which is written by the American poet Henry Longfellow or H.W. Longfellow.
(ii) The poet compares the rain with the hoofs of the horses, to give us an image of the rhythm and sound of the raindrops on the roof.
(iii) Gushes means 'Flows with force' and struggle out means come out with efforts'.  The poet means the same that when it rains the rainy water begins to flow to the slope rapidly.  It flows like a stream making a loud noise.

Across the window-pane
It pours and pours;
And swift and wide,
With a muddy tide,
Like a river down the gutter roars
The rain, the welcome rain!
(i)
(ii)
(iii)
Ans:
(i)
(ii)
(iii)





Thursday, 24 January 2019

شجرکاری کی اہمیت

شجرکاری کی اہمیت

خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر

درخت انسان کے دوست ہیں اور درخت لگانا شجرکاری کہلاتا ہے. شجر کاری نہ صرف سنت رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے بلکہ ماحول کو خوبصورت اور دلکش بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے .جهاں درخت دنیا کے جانداروں کو چھاؤں فراہم کرتے ہیں وہاں ان کی خوشبو سے زمانہ مہکتا ہے. رنگ برنگ کے درخت  كبھی ریگستان کو نخلستان میں بدل دیتے ہیں تو کبھی جنگل میں منگل کا ساماں پیدا کرتے ہیں. درختوں پر بسنے والے پرندوں کی چہچہاہٹ پر فضا ماحول میں رس گھول دیتی  هے

درختوں سے انسان کو بہت سے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں. یہ فائدے معاشی بھی ہیں اور معاشرتی بھی اگر ہم معاشی فوائد کا ذکر کریں تو درختوں سے حاصل ہونے والی لکڑی انسان کے بہت کام آتی ہے. کبھی یہ فرنیچر بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے تو کبھی جلانے کے لئے, کبھی اس کی شاخیں جانوروں كے چارے  کے طور پر استعمال ہوتی ہیں تو کبھی اس کے سوکھے پتے کھاد بنانے میں استعمال ہوتے ہیں. پھلوں کا حصول ہو یا بچوں کے کھیلنے کا میدان ہر جگه درخت ہیں انسان کے کام آتے ہیں

درختوں سے انسان کثیر زرمبادلہ بھی کماتا ہے اچھے معاشرے میں درختوں کی بہت قدر و قیمت ہوتی ہے یہ تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں اور ادویات کی تیاری میں بھی.

شجرکاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ درخت زندگی کے ضمان ہے اس لئے شجرکاری کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے. قدرت نے جہاں انسان کو اپنی بیش بها  نعمتوں سے نوازا ہے, اشجار بھی انہیں نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہیں. انسان کی ان گنت ضروریات  انہیں جنگلات کی مرون منت ہیں اگر ان جنگلات کو منظر عام سے غائب کر دیا جائے تو زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا. یہ اشجار ہماری غذائی ضروریات کے علاوہ ایندھن, غلہ, پھل, پھول, ادویات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے جانوروں اور پرندوں کا مسکن ہیں.

جنگلات کا یہی حسن فطرت انسان کی سماجی نفسیاتی اور جمالیاتی زندگی کی تكمیل  کرتا ہے, درخت انسانی زندگی کے سفر میں ایک مخلص, وفادار اور معاون دوست کی طرح ہر جگہ انسان کو آرام پہنچانے کے لیے موجود ہیں
 شجرکاری سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینی فریضہ بھی ہے

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ '`اگر تم بستر میں مرگ پر بھی ہو اور تمہارے پاس ایک بیج ہوں تو اسے بو دو."

;بہت سے جانور سبزی خور ہوتے ہیں ان سبزی خور جانوروں کو انسان اور دیگر جاندار كھاتے ہیں اس طرح درخت اور پودوں کے ذریعے خوراک کی ایک ذنجیر وجود میں آتی ہے. اس کے علاوہ انسان ہو یا جانور سب ھی کو زندہ رہنے کیلئے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے یہ آکسیجن درختوں اور پودوں کے سوا اور کہیں سے نہیں ملتی . اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب سے انسان نے دنیا میں آنکھ کھولی ہے درخت اس کی اہم ترین ضروریات میں شامل رہے ہیں آج ہمارے پاس درخت گھٹتے جارہے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ زندگی اسی طرح رواں دواں رہے


اے کاش تو سمجھ جاتا اتنی سی تو بات ہے
یہ قتل شجر اصل میں قتل حیات ہے

یا

شجرکاری کی اہمیت

درخت لگانا ایک نیک کام ہے جو ہمارے ماحول کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نہ صرف ہمارے لئے بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔

شجرکاری کی اہمیت:
ماحول کی حفاظت:
درختوں کا کٹاؤ ماحول کی تبدیلی کا ایک بڑا سبب ہے۔ اگر ہم درختوں کو کٹتے رہیں تو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو گلوبل وارمنگ کا ایک اہم عامل ہے۔
درختوں کے ذریعے ہم زمین کی کٹاؤ کو روک سکتے ہیں اور سیلابوں کی تباہ کاری سے بچ سکتے ہیں۔

صحت کی حفاظت:
درختوں کی خوشبو سے زمانہ مہکتا ہے اور ہمیں خوشی دیتی ہے۔
درختوں کے پھل کھانے سے ہماری صحت بہتر رہتی ہے۔

معاشرتی فوائد:
درختوں کی لکڑی سے ہم فرنیچر اور دوسری چیزیں تیار کرتے ہیں۔
درختوں کے نیچے بیٹھ کر لوگ ملکوں کی معاشرتی مسائل پر بات چیت کرتے ہیں۔

مذہبی اہمیت:
درخت لگانا ایک نیک عمل ہے جو اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی درخت لگانے کو سنت قرار دیا ہے۔
ختم کرتے ہیں: شجرکاری کی اہمیت کو سمجھ کر ہمیں اپنے ماحول کی حفاظت کرنی چاہیے۔ حکومت کو بھی شجرکاری کی مہم کو فروغ دینا چاہیے تاکہ ہمارے ماحول کو بچایا جا سکے۔

تعلیمی فوائد:
درختوں کے تعلیمی اہمیت بھی ہوتی ہے۔ ہم اس کے ذریعے بچوں کو درختوں کی اہمیت اور ماحول کی حفاظت کے بارے میں سکھا سکتے ہیں۔
مدارس اور کالجوں میں درختوں کے باغات قائم کرنے سے طلباء کو ماحول کی حفاظت کا علم ہوتا ہے۔

معاشی فوائد:
درختوں کی کاشت سے لوگ معاشی طور پر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
درختوں کے پھل، لکڑی، اور دیگر مصنوعات کی فروخت سے لوگ روزگار حاصل کرتے ہیں۔

مذہبی اہمیت:
اسلامی تعلیم کے مطابق، درخت لگانا نیک عمل ہے جو ہمیں دنیا اور آخرت کی کامیابی میں مدد دیتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی درخت لگانے کو سنت قرار دیا ہے، اور ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔

ختم کرتے ہیں:  شجرکاری کی اہمیت کو سمجھ کر ہمیں اپنے ماحول کی حفاظت کرنی چاہیے۔ حکومت کو بھی شجرکاری کی مہم کو فروغ دینا چاہیے تاکہ ہمارے ماحول کو بچایا جا سکے۔