Search This Blog

Sunday, 25 September 2022

Urdu Essay کی محمۖد سے وفا تونے توہم تیرے ہیں۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں۔

اس مضمون کے آغاز سے پہلے ہم انتہائی احترام و عقیدت کے ساتھ رحمۃ اللعالمین اور ساری کائنات کے مرکزِ عقیدت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شان مبارک میں سلام و درود و پاک کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ


کی محمۖد سے وفا تونے توہم تیرے ہیں۔
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں۔

پہ شعر ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کی مشہور نظم "جواب شکوہ "کا ہے- اس شعر کی پہلی لائن میں وفا سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، ان کی سنت ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا اور ان کی زندگی کو نمونہ بنا کر ان جیسی زندگی گزارنا ہے۔ جبکہ شعر کی دوسری لائن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور ان سے وفا کا اجر بتایا ہے کہ اللہ تعالی ہم سے نہ صرف راضی ہوگا بلکہ ہماری تقدیروں ميں جہانوں کی خوشیاں اور کامیابیاں لکھ دے گا۔
آللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
"تم ۂوگوں کے لیے آّپ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔"
(سورۃ الاحزاب، آیت 21)
خالق کائنات نے امام الانبیاء، سید المرسلین، شفیع المذنبین، فخر موجودات، رسالت مآب ﷺ کو جس مقام بلند وبرتر سے سرفراز فرمایا ہے اس سے نہ صرف ہر صاحب ایمان بلکہ ہر فردِ بشر بخوبی واقف ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی پاک (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) ‘‘
(سورۃ الم نشرح - اٰیت 4)
ترجمہ: "اور ہم نے آپ کے لیے آپکا ذکر بلند کردیا"
چنانچہ اس پوری کائنات میں خالق ِ کائنات کے بعد مخلوق میں سے اگر سب سے زیادہ کسی کا ذکر خیر کیا جاتا ہے تو وہ ذات صرف اور صرف رسالت مآب ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ کرۂ ارض پر موجود ہر صاحب ایمان کے کلمۂ شہادت میں آپ کا نام، موذن کی اذان واقامت میں آپ کا نام، نمازی کے تشہد و درود میں آپ کا نام، ذاکرین کی مجالس ذکر میں آپ کا ذکر خیر، صوفیوں کی خاموش سرگوشیوں میں آپ کا خیال بلکہ ہر مسلمان کے سینے میں اور اس کی زبان پر آپ کا نامی بصد ادب و احترام جاری و ساری رہتا ہے۔ اور کیوں نہ جاری ہو کہ خالقِ کائنات نے اس روئے زمین پر کسی بھی فرد بشر کو آپ ﷺ سے زیادہ عزت وشرف والا نہیں بنایا۔
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
غرضیکہ ایک مسلمان کے ایمان کی تکمیل محبت، اتباع و اطاعت نبوی ﷺ کے بغیر ہوہی نہیں سکتی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت ومحبت جزو ایمان ہے اور لازمۂ اسلام ہے، اس کےبغیردین و ایمان کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آپ (ﷺ) سے محبت، اتباع و اطاعت یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں آپ (ﷺ) نے جو احکام بتاۓ ہیں یا ہدایات دی ہیں یا جو عمل فرمایا ہے۔ ان پر گامزن ہو اور اپنی نفس کی خواہشات سے بچیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ترجمہ: "جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی۔"
(سورۃ النساء، آیت 80)
اگر ہم صحابہ کرامؓ، تابعین اور اپنے اسلاف کی سیرت کا مطالعہ کریں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ زندگی عشق رسول میں ڈوبی ہوئی تھی۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کفار کے اشعار کا جواب دیا کرتے تھے اور حضور نے ان کو مسجد نبوی کے منبر پر جگہ دیدی تھی۔ حضرت علیؓ ہجرت کے وقت اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر سوگئے تھے۔ صحابہ کرامؐ بے سروسامانی کی حالت میں حضور کے ایک اشارے پر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے، یہاں تک کہ جب کفار نے اسلام کو مٹانے کی خاطر جنگ کا اعلان کیا تو تھوڑے سے صحابہ کرام اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کفار کے ہزاروں لشکر سے لڑ پڑے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا یہانتک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور پوری انسانیت سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔"

آللہ تعالی نے آّپ صلی اللہ علیہ وسلم میں پوری کائنات کا حسن اور ذات مبارک کو سارے جہانوں کی خوبیاں و اوصاف عطا کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و آمین مانتے اور آّپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنۂ اخلاق اور سیرت مبارک سے ہی زیر ہوجاتے۔ اگر ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی پیروی کریں اور انکے طرز زندگی اپنا لیں تو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دل کو غلط خیالات اور خواہشات سے پاک کردیتا ہے- پھر اس فانی دنیا عزت، کامیابی و دولت کیا چیز ہے- اللہ پاک انسان کی قسمت کا لوح و قلم اسکے طابع کردیتے ہیں کیونکہ لوح وہ تختی ہے جس پر ہماری قسمت قلم بند کی جاتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سنت پر عمل کی توفیق دے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بہرمند کرے۔۔ آمین
خُودی کو کر بُلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خُود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے




No comments:

Post a Comment