Search This Blog
Showing posts with label Urdu -essays. Show all posts
Showing posts with label Urdu -essays. Show all posts
Saturday, 9 November 2024
Monday, 4 November 2024
Saturday, 26 October 2024
Monday, 14 October 2024
Thursday, 9 May 2024
قومی یکجہتی میں اردو زبان کے کردار پر ایک تفصیلی مضمون / قومی اتحاد کو فروغ دینے میں اردو زبان کا کردار
قومی یکجہتی میں اردو زبان کے کردار پر ایک تفصیلی مضمون
یا
قومی اتحاد کو فروغ دینے میں اردو زبان کا کردار
زبان، اپنے محض لسانی فعل سے ہٹ کر، قومی تشخص کی تشکیل اور متنوع برادریوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے میں ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر کام کرتی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں اردو اس حوالے سے اہم مقام رکھتی ہے۔ اس کی تاریخی میراث، ثقافتی فراوانی، اور وسیع پیمانے پر استعمال قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں اس کے اہم کردار میں معاون ہے۔
تاریخی سیاق و سباق:
اردو، جس کی جڑیں ہند آریائی اور فارسی روایات میں گہرائی تک پیوست ہیں، ایک بھرپور تاریخی نسب رکھتی ہے۔ یہ مغل دور میں ثقافتی ترکیب کی ایک زبان کے طور پر ابھری جس میں فارسی، عربی اور مقامی بولیوں کے عناصر کو ملایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ ادب، شاعری، اور نظم و نسق کی ایک زبان بن گئی، جس نے برصغیر پاک و ہند میں اہمیت حاصل کی۔
ثقافتی اہمیت:
اردو علاقائی اور لسانی سرحدوں سے ماورا ثقافتی اتحاد کی علامت کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس کی استعداد اسے ہندی، پنجابی، پشتو اور سندھی بولنے والوں سمیت مختلف لسانی پس منظر کے لوگوں کو سمجھنے اور ان کی تعریف کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ شمولیت متنوع برادریوں کے درمیان تعلق اور مشترکہ میراث کے احساس کو فروغ دیتی ہے۔
ذرائع ابلاغ:
پاکستان جیسی قوموں میں، جہاں متعدد زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں، اردو رابطے کا ایک مشترکہ ذریعہ ہے۔ یہ مختلف لسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان بات چیت اور افہام و تفہیم کی سہولت فراہم کرتا ہے، سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ دیتا ہے۔ تعلیم، میڈیا اور انتظامیہ میں اردو کا وسیع پیمانے پر استعمال ایک متحد قوت کے طور پر اس کے کردار کو مزید مضبوط کرتا ہے۔
ادبی اور ثقافتی ورثہ:
اردو ادب اور شاعری، جو مرزا غالب، علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسے نامور شاعروں کی لازوال تخلیقات سے مزین ہے، قومی شعور کی تشکیل اور اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اردو شاعری کی خوبصورتی اور گہرائی زبان اور نسل کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے متنوع برادریوں کے لوگوں کے ساتھ گونجتی ہے۔ مزید برآں، ثقافتی تقریبات، جیسے مشاعرے (شاعری اجتماعات) اور اردو ادبی میلے، اردو کے ثقافتی ورثے کو منانے اور شہریوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔
قومی شناخت کی علامت:
پاکستان کی قومی زبان اور ہندوستان کی سرکاری زبانوں میں سے ایک اردو کی حیثیت قومی شناخت کی علامت کے طور پر اس کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ذریعہ تعلیم کے طور پر اس کو اپنانا اردو کو قومی تانے بانے کے اٹوٹ انگ کے طور پر برقرار رکھنے اور فروغ دینے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ اردو کو مشترکہ زبان کے طور پر قبول کرنے سے شہریوں کے درمیان فخر اور تعلق کا احساس پیدا ہوتا ہے، تنوع کے درمیان اتحاد کے خیال کو تقویت ملتی ہے۔
آخر میں، اردو زبان پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں کثیر جہتی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی تاریخی میراث، ثقافتی فراوانی، وسیع پیمانے پر استعمال، اور علامتی اہمیت اس کی حیثیت کو متحد کرنے والی قوت کے طور پر فراہم کرتی ہے۔ افہام و تفہیم، شمولیت، اور شناخت کے مشترکہ احساس کو فروغ دے کر، اردو ان رشتوں کو مضبوط کرتی ہے جو متنوع برادریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھتے ہیں، جو قوم کی ہم آہنگی اور ہم آہنگی کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
تاریخی سیاق و سباق:
اردو، جس کی جڑیں ہند آریائی اور فارسی روایات میں گہرائی تک پیوست ہیں، ایک بھرپور تاریخی نسب رکھتی ہے۔ یہ مغل دور میں ثقافتی ترکیب کی ایک زبان کے طور پر ابھری جس میں فارسی، عربی اور مقامی بولیوں کے عناصر کو ملایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ ادب، شاعری، اور نظم و نسق کی ایک زبان بن گئی، جس نے برصغیر پاک و ہند میں اہمیت حاصل کی۔
ثقافتی اہمیت:
اردو علاقائی اور لسانی سرحدوں سے ماورا ثقافتی اتحاد کی علامت کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس کی استعداد اسے ہندی، پنجابی، پشتو اور سندھی بولنے والوں سمیت مختلف لسانی پس منظر کے لوگوں کو سمجھنے اور ان کی تعریف کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ شمولیت متنوع برادریوں کے درمیان تعلق اور مشترکہ میراث کے احساس کو فروغ دیتی ہے۔
ذرائع ابلاغ:
پاکستان جیسی قوموں میں، جہاں متعدد زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں، اردو رابطے کا ایک مشترکہ ذریعہ ہے۔ یہ مختلف لسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان بات چیت اور افہام و تفہیم کی سہولت فراہم کرتا ہے، سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ دیتا ہے۔ تعلیم، میڈیا اور انتظامیہ میں اردو کا وسیع پیمانے پر استعمال ایک متحد قوت کے طور پر اس کے کردار کو مزید مضبوط کرتا ہے۔
ادبی اور ثقافتی ورثہ:
اردو ادب اور شاعری، جو مرزا غالب، علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسے نامور شاعروں کی لازوال تخلیقات سے مزین ہے، قومی شعور کی تشکیل اور اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اردو شاعری کی خوبصورتی اور گہرائی زبان اور نسل کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے متنوع برادریوں کے لوگوں کے ساتھ گونجتی ہے۔ مزید برآں، ثقافتی تقریبات، جیسے مشاعرے (شاعری اجتماعات) اور اردو ادبی میلے، اردو کے ثقافتی ورثے کو منانے اور شہریوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔
قومی شناخت کی علامت:
پاکستان کی قومی زبان اور ہندوستان کی سرکاری زبانوں میں سے ایک اردو کی حیثیت قومی شناخت کی علامت کے طور پر اس کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ذریعہ تعلیم کے طور پر اس کو اپنانا اردو کو قومی تانے بانے کے اٹوٹ انگ کے طور پر برقرار رکھنے اور فروغ دینے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ اردو کو مشترکہ زبان کے طور پر قبول کرنے سے شہریوں کے درمیان فخر اور تعلق کا احساس پیدا ہوتا ہے، تنوع کے درمیان اتحاد کے خیال کو تقویت ملتی ہے۔
آخر میں، اردو زبان پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں کثیر جہتی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی تاریخی میراث، ثقافتی فراوانی، وسیع پیمانے پر استعمال، اور علامتی اہمیت اس کی حیثیت کو متحد کرنے والی قوت کے طور پر فراہم کرتی ہے۔ افہام و تفہیم، شمولیت، اور شناخت کے مشترکہ احساس کو فروغ دے کر، اردو ان رشتوں کو مضبوط کرتی ہے جو متنوع برادریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھتے ہیں، جو قوم کی ہم آہنگی اور ہم آہنگی کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
Sunday, 25 September 2022
Urdu Essay کی محمۖد سے وفا تونے توہم تیرے ہیں۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں۔
اس مضمون کے آغاز سے پہلے ہم انتہائی احترام و عقیدت کے ساتھ رحمۃ اللعالمین اور ساری کائنات کے مرکزِ عقیدت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شان مبارک میں سلام و درود و پاک کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
کی محمۖد سے وفا تونے توہم تیرے ہیں۔
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں۔
پہ شعر ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کی مشہور نظم "جواب شکوہ "کا ہے- اس شعر کی پہلی لائن میں وفا سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، ان کی سنت ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا اور ان کی زندگی کو نمونہ بنا کر ان جیسی زندگی گزارنا ہے۔ جبکہ شعر کی دوسری لائن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور ان سے وفا کا اجر بتایا ہے کہ اللہ تعالی ہم سے نہ صرف راضی ہوگا بلکہ ہماری تقدیروں ميں جہانوں کی خوشیاں اور کامیابیاں لکھ دے گا۔
آللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
آللہ تعالی نے آّپ صلی اللہ علیہ وسلم میں پوری کائنات کا حسن اور ذات مبارک کو سارے جہانوں کی خوبیاں و اوصاف عطا کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و آمین مانتے اور آّپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنۂ اخلاق اور سیرت مبارک سے ہی زیر ہوجاتے۔ اگر ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی پیروی کریں اور انکے طرز زندگی اپنا لیں تو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دل کو غلط خیالات اور خواہشات سے پاک کردیتا ہے- پھر اس فانی دنیا عزت، کامیابی و دولت کیا چیز ہے- اللہ پاک انسان کی قسمت کا لوح و قلم اسکے طابع کردیتے ہیں کیونکہ لوح وہ تختی ہے جس پر ہماری قسمت قلم بند کی جاتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سنت پر عمل کی توفیق دے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بہرمند کرے۔۔ آمین
آللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
"تم ۂوگوں کے لیے آّپ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔"
(سورۃ الاحزاب، آیت 21)
خالق کائنات نے امام الانبیاء، سید المرسلین، شفیع المذنبین، فخر موجودات، رسالت مآب ﷺ کو جس مقام بلند وبرتر سے سرفراز فرمایا ہے اس سے نہ صرف ہر صاحب ایمان بلکہ ہر فردِ بشر بخوبی واقف ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی پاک (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:(سورۃ الاحزاب، آیت 21)
’’وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) ‘‘
(سورۃ الم نشرح - اٰیت 4)
ترجمہ: "اور ہم نے آپ کے لیے آپکا ذکر بلند کردیا"
چنانچہ اس پوری کائنات میں خالق ِ کائنات کے بعد مخلوق میں سے اگر سب سے زیادہ کسی کا ذکر خیر کیا جاتا ہے تو وہ ذات صرف اور صرف رسالت مآب ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ کرۂ ارض پر موجود ہر صاحب ایمان کے کلمۂ شہادت میں آپ کا نام، موذن کی اذان واقامت میں آپ کا نام، نمازی کے تشہد و درود میں آپ کا نام، ذاکرین کی مجالس ذکر میں آپ کا ذکر خیر، صوفیوں کی خاموش سرگوشیوں میں آپ کا خیال بلکہ ہر مسلمان کے سینے میں اور اس کی زبان پر آپ کا نامی بصد ادب و احترام جاری و ساری رہتا ہے۔ اور کیوں نہ جاری ہو کہ خالقِ کائنات نے اس روئے زمین پر کسی بھی فرد بشر کو آپ ﷺ سے زیادہ عزت وشرف والا نہیں بنایا۔ (سورۃ الم نشرح - اٰیت 4)
ترجمہ: "اور ہم نے آپ کے لیے آپکا ذکر بلند کردیا"
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
غرضیکہ ایک مسلمان کے ایمان کی تکمیل محبت، اتباع و اطاعت نبوی ﷺ کے بغیر ہوہی نہیں سکتی،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت ومحبت جزو ایمان ہے اور لازمۂ اسلام ہے، اس کےبغیردین و ایمان کا کوئی تصور نہیں ہے۔
آپ (ﷺ) سے محبت، اتباع و اطاعت یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں آپ (ﷺ) نے جو احکام بتاۓ ہیں یا ہدایات دی ہیں یا جو عمل فرمایا ہے۔ ان پر گامزن ہو اور اپنی نفس کی خواہشات سے بچیں۔ اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ترجمہ: "جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی۔"
(سورۃ النساء، آیت 80)
اگر ہم صحابہ کرامؓ، تابعین اور اپنے اسلاف کی سیرت کا مطالعہ کریں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ زندگی عشق رسول میں ڈوبی ہوئی تھی۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کفار کے اشعار کا جواب دیا کرتے تھے اور حضور نے ان کو مسجد نبوی کے منبر پر جگہ دیدی تھی۔ حضرت علیؓ ہجرت کے وقت اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر سوگئے تھے۔ صحابہ کرامؐ بے سروسامانی کی حالت میں حضور کے ایک اشارے پر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے، یہاں تک کہ جب کفار نے اسلام کو مٹانے کی خاطر جنگ کا اعلان کیا تو تھوڑے سے صحابہ کرام اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کفار کے ہزاروں لشکر سے لڑ پڑے۔(سورۃ النساء، آیت 80)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا یہانتک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور پوری انسانیت سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔"
آللہ تعالی نے آّپ صلی اللہ علیہ وسلم میں پوری کائنات کا حسن اور ذات مبارک کو سارے جہانوں کی خوبیاں و اوصاف عطا کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و آمین مانتے اور آّپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنۂ اخلاق اور سیرت مبارک سے ہی زیر ہوجاتے۔ اگر ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی پیروی کریں اور انکے طرز زندگی اپنا لیں تو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دل کو غلط خیالات اور خواہشات سے پاک کردیتا ہے- پھر اس فانی دنیا عزت، کامیابی و دولت کیا چیز ہے- اللہ پاک انسان کی قسمت کا لوح و قلم اسکے طابع کردیتے ہیں کیونکہ لوح وہ تختی ہے جس پر ہماری قسمت قلم بند کی جاتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سنت پر عمل کی توفیق دے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بہرمند کرے۔۔ آمین
خُودی کو کر بُلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خُود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
Monday, 30 May 2022
Wednesday, 2 March 2022
Monday, 10 February 2020
پاکستان کی ترقی / مسائل حل کرنے میں طلبہ کا کردار
/پاکستان کی ترقی میں طلبہ کا کردار/
پاکستان کے مسائل حل کرنے میں طلبہ کا کردار
حیرت ہے تعلیم و ترقی میں ہیں پیچھے
جے قوم کا آغاز اقراء سے ہوا تھا
پاکستان ایک قوم ہے اور کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس قوم کے افراد کی کاؤش ہیں جن کے نتیجے میں ملک اخلاقی، سماجی، معاشی اور معاشرتی طور پر اپنی بنیادی ضروریات بوری کرتے ہوۓ بہتری کی طرف گامزن ہوتا ہے اور تبھی ایک قوم ترقی یافتہ ہوتی ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس میں لا تعداد مسائل ہیں۔ اور کسی بھی ملک کی ترقی میں نوجوان طبقہ یعنی طلبہ مرکزی کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اس میں نئے خواب بننے اور انکو پورا کرنے کا جذبہ، صلاحیت اور قوت موجود ہوتی ہے۔ اگر کسی قوم کا نوجوان طبقہ تعلیم یافتہ ہے، باشعور ہے، اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو جانتا ہے تو ایسی قوم کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے اور روشن ہے۔ لیکن اگر یہی طلبہ غیر ذمہ دار ہو اور انہیں اپنے فرائض کا احساس نہ ہو تو ایسی قوم کا مستقبل تاریک ہے۔ لہذا طلبہ جن میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی، صورت فولاد
ملک کی ترقی ایک تعلیم یافتہ انسان کی سوچ اور ذہانت پر مبنی ہے۔ ایک فرد جتنا تعلیم یافتہ ہوگا وہ اتنے ہی اچھے طریقے سے ملک کی تعمیر و ترقی کے لۓ کام کرتے ہوۓ بہتر سے بہتر ذرائع کو استعمال میں لاۓ گا۔ لیکن ایک طالب علم اکیلا پوری قوم کا مستقبل نہیں سنوار سکتا ۔ اولین قدم ذہنی ہم آہنگی اور یکجہتی ہے۔ اگر طلبہ گروہ میں بنثے ہوۓ ہونگے اور صرف ذاتی مفاد اور ایک طبقہ کے لۓ کام کریں گے تو ملک زبان اور نسل کے فساد میں پھنس جاۓ گا اور اندورونی تفریق کی وجہ سے آپس کی نفرتیں اور عداوتیں ملک کو کھوکلا کردینگی۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جسکی مخصوص تہذیب و تمدن اور روایات ہیں ہمیں ان روایات کو اپنے اندر اس طرح محفوظ کرنا ہے کہ وہ آئندہ نسلوں میں زندہ رہے۔ اور دور جدید میں دوسری قومیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر نئی نئی ایجادات کر کے تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہے ۔ ہمارے ملک کے طلبہ کو چاہئے کہ وہ اپنے آپکو جدید تعلیم سے آراستہ کریں . جدید و فنی تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ باقی شعبۂ تعلیم میں آگے بڑھے اور بہتر سے بہتر کی تلاش کرے تاکہ ملک صحیح معنوں میں پسماندگی سے باہر نکلے۔ نوجوان ہی قومی تہزیب اور ثقافت کے پاسبان ہوتے ہیں۔ اگر وہ اچھی تعلیم حاصل کریں گے تو وہ نہ صرف اپنے آج کو سدھارے گے بلکہ اپنی بعد کی نسل کو بھی اچھا مستقبل دے سکے گے -
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہيں۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائیگی
کسی بھی عزم کی ترقی میں طلبہ کے کردار کی بہترین مثال تحریک پاکستان میں طلبہ کی جدوجہد تھی۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے طلبہ کو سیاست سے باہر نکلنے کی نصیجت کرتے ہوۓ تعلیم کی طرف متوجہ کیا تاکہ وہ استحکام پاکستان میں بھی بہترین کردار ادا کریں اور فرمایا کہ
"علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے اس لۓ علم کو اپنے ملک میں بڑھائیں کوئی آپ کو شکست نہیں دے سکتا!!"
غرضیکہ تعلیم کے جس شعبہ کو اپناۓ اتنی انتھک محنت کرے کہ انہیں پیشہ وارانہ مہارت حاصل ہو اور اپنی بھرپور صلاحیتوں کا لوہا منوا کر دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن کرے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے علم کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوۓ فرمایا کہ
"علم حاصل کرو چاہے اس کے لۓ چین ہی کیوں نہ جانا پڑے"۔
پس علم ہی وہ دولت ہے جو ایک نسل کو سنوار کر آنے والی نسلوں تک کے لۓ ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اور ہر شعبۂ زندکی میں نکھار پیدا کرتا ہے لہذا طلبہ کو چاہیے کہ وہ دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے فیض حاصل کرے اور پاکستان کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تعمیر و ترقی کی طرف گامزن کرے۔ اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کریں. بقول علامہ اقبال
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
Source: Lecture from Professor Musharaf Mehmood
Note: Double Click on Video to Play
Tuesday, 24 December 2019
Thursday, 24 October 2019
مضمون - خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے. خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے.
مضمون
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے.
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
میرا آجکا مضمون شاعر مشرق علامہ اقبال کا شعر ہے. جن کا پیغام یا فلسفہ حیات صرف ایک لفظ " خودی" سے عیاں ہوجاتا ہے. خودی فارسی زبان کا لفظ ہے - لغوی اعتبار سے خودی کے معنی انا، خود پرستی، خود مختاری، خود سری، خود غرضی اور غرور کے ہیں۔ لیکن اقبال نے ”خودی“ کا لفظ تکبر و غرور یا اردو و فارسی کے لغوی معنوں میں استعمال نہیں کیا ہے۔ ان کے نزدیک خودی نام ہے احساسِ غیرت مندی کا، جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا، اپنی انا کو شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، مظاہراتِ فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔
خودی کی آنکھ نہ جھک جاۓ بزم ہستی میں
کہ جھک گئ تو یہ بے نور ہو کر رہتی ہے
”خودی“ کا تعلق انسان کا اپنی نفسی خواہشات پر قابو پا کر زندگی کو ایسے سانچے میں ڈھالنا ہے جو اس کے کردار کی تعمیر کریں۔ زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ انسان کی سوچوں پر منحصر ہے . فرد وملت کی ترقی و تنزل، زندگی کا تحفظ اور استحکام ۔ ازل سے ابد تک انسان کی ذاتی سوچ اور عمل کی ہی کارفرمائی ہے۔ جن کے بناء پر وہ زندگی کا عروج بھی جاصل کرسکتا ہے یا پھر زوال سے بھی ہمکنار ہوسکتا ہے۔ غرضیکہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے ۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے ۔خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقرمیں شہنشائی کی شان پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے ۔
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اُس میں
نہ پُوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے
نہ پُوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے
انسان کی جدوجہد و عمل اس کے کردار کی تعمیر کرتا ہے۔ بے قید و بے ترتیب نفس کی مثال شیطان کی سی ہے جو صراط مستقیم سے بھٹک چکی ہو۔ دنیا و آخرت میں اعلی مقام حاصل کرنے کیلۓ اطاعت الہی، ضبط نفس اور نیابت الہی اولین شرط ہے۔ غرض عشق حقیقی سے سرشار ہوکر انسان اپنے آپ کو اس راہ پر گامزن کرے جس سے وہ آللہ کی قربت حاصل کرسکے ۔ آللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اسے عقل و شعور عطا کیا ہے تاکہ وہ اپنے عمل اور کردار سے اللہ کی خوشنوی اور رضا حاصل کرے. ۔ اسی میں اسکی کامیابی ہے ، جو احادیث میں بھی موجود ہے۔
ترجمہ : " یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا"
اپنی نفس پر قابو رکھ کر انسان اس درجہ کو پالینے کے قابل ہوجاتا ہے جو اسے حقیقتا" خلیفۃ اللہ کے منصب کا اہل بنا دیتا ہے۔ اس قانون کی پابندی خودی کی تکمیل کے لئے لازمی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارتا وہ لازما" کسی معاشرہ ، کسی قوم اور کسی ملت کا فرد ہوتا ہے۔ ۔ فرد کی مثال ایک قطرہ کی ہے اور ملت دریا کی طرح ہے ۔ مگر اقبال کی نظر میں یہ قطرہ ، دریا میں مل جانے کے بعد اپنی ہستی کو فنا نہیں کرڈالتا بلکہ اس طریقہ سے اس کی ہستی مزيد استحکام حاصل کرلیتی ہے ۔ وہ بلند اور دائمی مقاصد سے آشنا ہوجاتا ہے ۔ اس کی قوتیں منظّم اور مضبوط ہوجاتی ہیں اور اس کی خودی پائیدار اور لازوال بن جاتی ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
الغرض خودی کل کائنات کو تسخیر کرنے کا وہ راز ہے جو نفس انسان کو وہ مقام دلا سکتی ہے کہ خدا کی لازوال قدرت اسکو کامیابیوں کی نہ ختم ہونے والے راستے پر گامزن کردے اور اسکی خواہشات کو اسکی تقدیر کا حصہ بنا دے۔
خِردمندوں سے کیا پُوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ مَیں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
Friday, 27 September 2019
Subscribe to:
Posts (Atom)