امید کی خوشی
حوالۂ سبق:- یہ نثر پارہ یا جملہ اردو کی نصابی کتاب میں شامل سبق "امید کی خوشی" سے شامل کیا گیا ہے۔ جس کے مصنف سر سید احمد خان ہیں۔
سبق "امید کی خوشی" تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں امید کو دل کا قرار اور فکریں دور کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں ایک میں اپنے بچے کو لوری دیتے ہوۓ اسے اپنا مرکز قرار دے رہی ہے۔ سبق کے آخری حصے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات زندگی کا حوالہ دے کر امید کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین کی گئ ہے۔ زیر تشریح جملہ یا نثر سبق کے --- (پہلے، دوسرے یا آخری) حصے سے اخز کیے گیے ہیں۔
حوالۂ مصنف :- نصاب میں شامل سبق "امید کی خوشی " سر سید احمد خان کی تصنیف "مضامین سید" سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ سر سید دہلی میں پیدا ہوۓ۔ ابتدائی تعلیم مکتب میں حاصل کی۔ اور دینی تعلیم اٹھارہ سال کی عمر میں مکمل کرلی۔ منصفی کا امتحان پاس کرکے ترقی کرتے کرتے جج کے عہدے تک پہنچ گۓ۔
آپ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اپنے اخبار" سیدالاخبار" سے کیا۔ مسلمانوں کے اخلاق کی اصلاح کے لے ایک رسالہ "تہذیب الاخلاق" نکالا۔ مسلمانوں کی تعلیم کےلیے علی گڑھ میں ایک اسکول قائم کیا جو ترقی پا کر ایک عظیم الشان یونیورسٹی بن گیا۔
سر سید احمد ایک بلند پایۂ نثرنگار، اخبار نویس، عالم اور مصلح قوم تھے۔ آخری مغل بہادر شاہ ظفر نے آپ کو "جوادالدولہ" اور "عارف جنگ" کے خطابات دیے۔ انگریز حکومت نے بھی آپ کو "سر" کا خطاب دیا۔ آپ کی مشہور تصانیف "آثارالصنادید، خطبات احمدیہ، اسباب بغاوت ہند اور تاریخ سرکشی بجنور" ہیں۔ انکے اصلاحی مضامین کی سب سے بڑی خوبی سادہ زبان ہے۔ انھیں "جدید اردو نثر کا بانی" بھی کہا جاتا ہے۔
سبق "امید کی خوشی" تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں امید کو دل کا قرار اور فکریں دور کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں ایک میں اپنے بچے کو لوری دیتے ہوۓ اسے اپنا مرکز قرار دے رہی ہے۔ سبق کے آخری حصے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات زندگی کا حوالہ دے کر امید کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین کی گئ ہے۔ زیر تشریح جملہ یا نثر سبق کے --- (پہلے، دوسرے یا آخری) حصے سے اخز کیے گیے ہیں۔
حوالۂ مصنف :- نصاب میں شامل سبق "امید کی خوشی " سر سید احمد خان کی تصنیف "مضامین سید" سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ سر سید دہلی میں پیدا ہوۓ۔ ابتدائی تعلیم مکتب میں حاصل کی۔ اور دینی تعلیم اٹھارہ سال کی عمر میں مکمل کرلی۔ منصفی کا امتحان پاس کرکے ترقی کرتے کرتے جج کے عہدے تک پہنچ گۓ۔
آپ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اپنے اخبار" سیدالاخبار" سے کیا۔ مسلمانوں کے اخلاق کی اصلاح کے لے ایک رسالہ "تہذیب الاخلاق" نکالا۔ مسلمانوں کی تعلیم کےلیے علی گڑھ میں ایک اسکول قائم کیا جو ترقی پا کر ایک عظیم الشان یونیورسٹی بن گیا۔
سر سید احمد ایک بلند پایۂ نثرنگار، اخبار نویس، عالم اور مصلح قوم تھے۔ آخری مغل بہادر شاہ ظفر نے آپ کو "جوادالدولہ" اور "عارف جنگ" کے خطابات دیے۔ انگریز حکومت نے بھی آپ کو "سر" کا خطاب دیا۔ آپ کی مشہور تصانیف "آثارالصنادید، خطبات احمدیہ، اسباب بغاوت ہند اور تاریخ سرکشی بجنور" ہیں۔ انکے اصلاحی مضامین کی سب سے بڑی خوبی سادہ زبان ہے۔ انھیں "جدید اردو نثر کا بانی" بھی کہا جاتا ہے۔